[]
مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کئی مرتبہ صدر کے انتخاب کے لئے عوامی رائے لی گئی ہے۔ جنوری 1980 میں ایران میں پہلا صدارتی الیکشن ہوا جبکہ آخری الیکشن2022 میں ہوگئے تھے۔
پہلا صدارتی الیکشن
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ایک سال بعد ایران میں 1980 کے اوائل میں صدارتی انتخابات ہوئے۔ انتخابات سے پہلے مہدی بازرگانی نے اپنے عہدے سے استعفی دیا تھا اور ملک کا انتظام انقلابی کونسل کے سپرد کی گئی تھی۔ پہلے صدارتی الیکشن میں ابوالحسن بنی صدر، سید احمد مدتی، حسن حبیبی، داریوش فروہر، صادق طباطبائی، محمد مکری، کاظم سامی اور صادق قطب زادہ نے حصہ لیا تھا۔ اس الیکشن میں مجموعی طور 14 ملین لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ بنی صدر نے سب سے زیادہ 10 ملین ووٹ حاصل کرکے انتخابات جیت لئے اور صدر منتخب ہوگئے۔
بنی صدر کی صدارت کا عرصہ 17 مہینوں پر مشتمل تھا۔ اس عرصے میں ایک طرف مجاہدین خلق (منافقین) کو فعالیت کا موقع دیا گیا جس کی وجہ سے انقلاب مخالف عناصر کو شہہ مل گئی اور دوسری طرف پارلیمنٹ، عدلیہ، نگران کونسل اور دیگر انقلابی اداروں نے بنی صدر کے اقدامات کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ امام خمینی نے ایک حکمنامے کے تحت بنی صدر کو معزول کردیا۔
اس کے چند روز بعد تنظیم مجاہدین خلق (منافقین) کی جانب سے جمہوری اسلامی پارٹی کے مرکزی دفتر بم دھماکہ کیا گیاجس میں شہید بہشتی سمیت 72 افراد شہید ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد بنی صدر روپوش ہوگئے۔
معزول ہونے کے ایک مہینے بعد بنی صدر مجاہدین خلق کے سربراہ مسعود رجوی کے ہمراہ فرانس فرار ہوگیا۔
دوسرا صدارتی الیکشن
اگست 1983 میں ہونے والے دوسرے صدارتی انتخابات میں 13 ملین لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا جس میں محمد علی رجائی صدر منتخب ہوگئے۔ انتخابات کے دوران عراق نے ایران کے خلاف جنگ مسلط کی تھی اور مغرب اور جنوب میں بعض مقامات پر عراق نے قبضہ کرلیا تھا۔
بنی صدر کی معزولی کی وجہ سے مقاومتی محاذ اور امام خمینی کے حقیقی پیروکاروں کے لئے نئی روح مل گئی تھی۔ اسی وجہ سے محمد علی رجائی کو اپنے حریفوں پر بھاری اکثریت ملی تھی۔ ان کو 14 میں 13 ملین ووٹ ملے تھے۔ تعلیمی میدان میں سابقہ خدمات کے بل بوتے پر رجائی تہران سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ بنی صدر کی معزولی کے بعد مختصر مدت کے لئے ان کو صدارت ملی کیونکہ ایک مہینے بعد وزیراعظم کے دفتر میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں وزیراعظم جواد باہنر کے ہمراہ صدر رجائی بھی شہید ہوگئے۔
تیسرا صدارتی الیکشن
تیسرے صدارتی الیکشن کے دوران سیاسی بحران عروج پر تھا۔ باہر سے مسلط کی گئی جنگ اور اندرونی طور پر منافقین کے دباو کی وجہ سے ملک میں بحران پید اہوگیا تھا۔ اس الیکشن میں آیت اللہ سید علی خامنہ ای، سید علی اکبر پرورش، حسن غفوری فرد اور سید رضا نے حصہ لیا تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ستمبر 1983 میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ انتخابات سے تین مہینے پہلے تہران کی مسجد ابوذر میں منافقین کی جانب سے بم دھماکے میں ان کو شہید کرنے کی سازش کی گئی تھی۔ انہوں نے 1 کروڑ 80 لاکھ میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ ووٹ حاصل کئے یہ کسی بھی امیدوار کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا ریکارڈ ہے۔
چوتھا صدارتی الیکشن
چوتھا صدارتی الیکشن چار بعد ہوئے جس میں آیت اللہ سید علی خامنہ ای، حبیب اللہ عسگراولادی اور سید محمود کاشانی نے حصہ لیا۔
ان انتخابات میں بھی آیت اللہ خامنہ ای نے 14 میں سے 12 ملین بیرون ملک کئی دورے کئے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران عالمی سطح پر ایران کے خلاف ہونے والی سازشوں اور استکباری پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔
ان کے دور صدارت میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں ایران کے حق میں قرارداد منظور ہوئی۔ 4 جون 1989 کو امام خمینی انتقال کرگئے جس کے بعد مجلس خبرگان نے ان کو امام خمینی کے نائب اور ایران کے سپریم لیڈر کے طور پر منتخب کیا۔ اس واقعے کے دو مہینے بعد ایران میں پانچواں صدارتی الیکشن ہوا۔
پانچواں صدارتی الیکشن
1989 میں ہونے والے ان انتخابات میں ہاشمی رفسنجانی اور عباس شیبانی نے حصہ لیا۔ ہاشمی رفسنجانی نے 16 ملین میں سے 15 ملین ووٹ حاصل کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
صدر بننے سے پہلے ہاشمی رفسنجانی انقلابی کونسل کے رکن تھے۔ انہوں نے جمہوری اسلامی پارٹی کی تشکیل میں حصہ لیا تھا۔ 1988 میں دہشت گروہ الفرقان نے ان کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔
چھٹا صدارتی الیکشن
1993 میں اسلامی جمہوری نظام کے تحت چھٹا صدارتی الیکشن ہوا جس میں ہاشمی رفسنجانی، عبداللہ جاسبی اور احمد طاہری نے حصہ لیا تھا۔
ہاشمی رفسنجانی نے 16 ملین میں سے 10 ملین سے زیادہ ووٹ حاصل کئے اور مزید چار سال کے لئے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری مدت کے اختتام پر رہبر معظم نے ان کو مجمع تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ کے طور پر منتخب کیا۔
ساتواں صدارتی الیکشن
مئی 1997 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں سید محمد خاتمی، علی اکبر ناطق نوری، سید رضا زوارہ ای اور محمد محمدی ری شہری نے حصہ لیا تھا۔ سید محمد خاتمی نے 29 ملین میں سے 20 ملین سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے انتخابات جیت لئے۔ اس دور میں تہران میں اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ سید محمد خاتمی کے دور میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا۔
آٹھواں صدارتی الیکشن
مئی 2001 میں ایران میں آٹھواں صدارتی الیکشن ہوا جس میں دوبارہ مجموعی طور پر 28 ملین سے زائد ووٹ کاسٹ ہوئے جس میں سے سید محمد خاتمی نے 21 ملین سے زائد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ سید محمد خاتمی کے دوسرے دور صدارت میں امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا اور طالبان اور صدام حسین کی حکومت ختم کردی۔
نواں صدارتی الیکشن
17 جون 2005 کو ایران میں نواں صدارتی الیکشن ہوا جس میں محمود احمدی نژاد، ہاشمی رفسنجانی، مہدی کروبی، باقر قالیباف، مصطفی معین اور علی لاریجانی نے حصہ لیا۔ محمود احمدی نژاد اور علی اکبر رفسنجانی انتخابات کے اگلے دور میں گئے ۔ اس الیکشن میں تقریبا 28 ملین افراد نے شرکت کی اور دوسرے مرحلے میں احمدی نژاد نے 17 ملین سے زائد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔
دسواں صدارتی الیکشن
جون 2009 میں ہونے والے دسویں صدارتی الیکشن میں محمود احمدی نژاد، میر حسین موسوی، محسن رضائی اور مہدی کروبی نے حصہ لیا۔ اس الیکشن میں 39 ملین سے زائد لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا جو کہ ووٹ دینے کے اہل افراد کا 85 فیصد تھا۔ اس الیکشن میں محمود احمدی نژاد نے مجموعی طور پر 24 ملین سے زائد ووٹ حاصل کئے اور دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوگئے۔
گیارہواں صدارتی الیکشن
جون 2013 میں گیارہواں صدارتی الیکشن ہوا جس میں حسن روحانی، محمد باقر قالیباف، سعید جلیلی، محسن رضائی، علی اکبر ولایتی اور سید محمد غرضی نے حصہ لیا۔ حسن روحانی نے 36 میں سے 18 ملین سے زائد ووٹ حاصل کرکے انتخابات جیت لئے۔
بارہواں صدارتی الیکشن
مئی 2017 میں ہونے والے بارہویں صدارتی انتخابات میں حسن روحانی نے دوسری مرتبہ حصہ لیا ان کے علاوہ سید ابراہیم رئیسی، مصطفی میرسلیم اور مصطفی ہاشمی طبا بھی انتخابات کی دوڑ میں شریک تھے۔ اسحاق جہانگیری اور باقر قالبیاف نے دوسرے امیدواروں کے حق میں دستبر دار ہونے کااعلان کیا تھا۔ حسن روحانی مجموعی طور پر 23 ملین سے زائد ووٹ حاصل کئے اور دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوگئے۔
تیرہواں صدارتی الیکشن
جون 2021 میں ہونے والے تیرہویں صدارتی انتخابات میں سید ابراہیم رئیسی کے علاوہ محسن مہر علیزادہ، عبدالناصر ہمتی، محسن رضائی، علی رضا زاکانی، سعید جلیلی اور سید امیرحسین قاضی زادہ نے درخواست جمع کی تھی تاہم سعید جلیلی، زاکانی اور علیزادہ نے دوسروں کے حق میں کاغذات نامزدگی واپس لی تھی۔
تیرہویں انتخابات میں سید ابراہیم رئیسی نے مجموعی طور 17 ملین سے زائد ووٹ حاصل کرکے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
صدارتی انتخابات کا چودہواں مرحلہ 2025 میں ہوگا۔ موجودہ صدر آیت اللہ رئیسی دوبارہ منتخب ہوں گے یا ایرانی عوام کسی اور کو ان کی جگہ ووٹ دیں گے؟ اس کے لئے موجودہ صدارتی دور کے خاتمے تک انتظار کرنا ہوگا۔ابزارک تصویر