ایک مظلومہ کی فریاد

[]

سوال: ٹپک ائے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستان میری

اوپر لکھا ہوا شعر میری زندگی کی بالکل صحیح عکاسی کرتا ہے۔ میں بدنصیب اردو لٹریچر کی ایم اے فرسٹ کلاس اور ایم۔فل ہوں۔ یہ ڈگریاں میں نے اپنی شادی سے قبل حاصل کی تھیں۔ میں ایک بہترین طالبہ تھی اور شادی سے قبل میرا بحیثیت لکچرر اردو تقرر ایک یقینی بات تھی۔ ہمارا خاندان مشرقی تہذیب کا دلدادہ تھا اور اسی دینی اور ادبی ماحول میں میری پرورش ہوئی۔

مجھے شعر و ادب سے بے حد شغف تھا اور آج بھی ہے اور اردو اشعار ہی میرے قلب و جگر کے زخم کا مرہم ہیں۔ میں ایک پامال زندگی گزاررہی ہوں۔ گزشتہ 27سال سے اپنے جابر اور ظالم شوہر کی دشنام طرازیاں‘ مار پیٹ اور ظلم و ستم کا شکار ہوں۔ میری شادی میرے والدین نے آج سے 27سال قبل ایک ریاستی محکمہ کے انجینئرنگ سوپروائزر سے کردی اور اس وقت ان کی تنخواہ بمشکل تین سو روپے تھی۔

شادی کے بعد مجھے ملازمت ملنے والی تھی لیکن میرے شوہر نے جو مجھ سے تعلیمی میدان میں پیچھے ہونے کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا تھے‘ مجھے ملازمت کرنے نہ دی۔ اور دھمکی دی کہ اگر میں ملازمت کروں تو مجھے طلاق دے دیں گے۔ میرے والدین نے مجھے بہت سمجھایا اور میں نے ان کی مرضی کے آگے شکست قبول کرلی۔ اگر میں ملازمت کرلیتی تو موجودہ اسکیل کے مطابق میری تنخواہ بیس ہزار روپیوں سے زیادہ ہوتی۔

اس طویل عرصہ میں دو لڑکے اور ایک لڑکی ہوئی۔ لڑکی کی شادی ہوگئی۔ ایک لڑکا بیرون ملک ملازمت کررہا ہے جو میرے تعلق سے بہت پریشان رہتا ہے۔ ایک لڑکا میرے ساتھ ہے ۔ شوہر صاحب اسی محکمہ میں ترقی کرکے اب ڈپٹی ایگزیکٹیو انجینئر بن گئے ہیںاور بیس ہزار روپیہ تنخواہ پاتے ہیں۔ احساس کمتری اس حد تک آگے بڑھی کہ ہر روز مجھے گالیاں دیتے اور مار پیٹ بھی کرتے۔ عمر کی اس منزل میں بھی انہو ںنے اپنے جورو ظلم میں کمی نہ کی اور کچھ روز قبل بلا کسی وجہ کے شدید زخم پہنچائے۔

پیر پر اس زور سے لات ماری کہ پیر میں سوجن آگئی مسلسل غم و اندوہ کی وجہ سے میں ذیابطیس مرض کی شکار ہوگئی۔ نہ مجھے طلاق دیتے ہیں اور نہ ایک باعزت زندگی۔ میں زندگی سے اوب گئی ہوں اور مرجانا چاہتی ہوں۔ ان کی پست ذہنیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ وہ گھر کی ہر چیز خود خرید کر لاتے ہیں۔ چاول ‘ آٹا‘ شکر‘ تیل اور دیگر اشیاء اگر مہینے سے قبل ختم ہوجائیں تو مجھے گالیا ں دیتے ہیں اور مار پیٹ کرتے ہیں۔

زندگی بھر میرے اپنے اخراجات کے لئے کبھی روپیہ پیسہ نہیں دیا۔ 27سال میں اس قیدی کی طرح گزاری ہوں جس پر آزادی اور باہر کی فضاء ممنوع ہے۔ میرا لڑکا میری مظلومیت کی وجہ سے بے حد پریشان رہتا ہے اور اس نے لکھا ہے کہ جوں ہی وہ معاشی طور پر مستحکم ہوگا میری رہائش کا علاحدہ انتظام کردے گا تاکہ میں اپنے شوہر کے ظلم سے چھٹکارا حاصل کرسکوں ۔ میرے کان ان کی گالیاں سن کر پک چکے ہیں اور میرا جسم ان کی مارپیٹ سے مجروح ہے۔ کئی مرتبہ اس زور سے تھپڑ مارا کہ سماعت متاثر ہوگئی اور کان کا ایک پردہ بھی پھٹ گیا۔

یہ ظلم تادم تحریر جاری ہے ۔ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو اپنی زندگی ختم کردیتی اور قتل ایک گناہ نہ ہوتا تو انہیں بھی میٹھی نیند ہمیشہ کیلئے سلادیتی۔ میرے شوہر ایک آزاد مزاج شخص ہیں۔ شراب کے عادی ہیں۔ رشوت کے پیسوں سے شراب پیتے ہیں۔ مزاج میں آوارگی نہیں ہے لیکن معلوم پڑا ہے کہ آج کل دوسری شادی کے چکر میں ہیں اور اپنی عمر 47سال بتارہے ہیں اور شادی کی وجہ پہلی بیوی کا مرض اور اس کا عدم تعاون بتارہے ہیں۔

ایک سو گز کا ایک مکان میرے نام پر خریدا جس میں آج کل مقیم ہوں۔ ساری زندگی شوہر کا سکھ نصیب نہیں ہوا میری خواہش یہ ہے کہ وہ میری زندگی سے دور چلے جائیں۔ مجھے طلاق دے دیں تاکہ اذیت کا یہ سلسلہ بند ہوجائے جسے برداشت کرنے کی اب مجھ میں ہمت نہیں۔ اس سے قبل کئی مواقع پر انہوں نے میرا گلاگھونٹ ڈالا جس کے صدمہ سے میری سانس رک گئی۔ ایک مرتبہ پٹرول چھڑک کر جلادینے کی دھمکی دی۔ مجھے اس ظالم سے چھٹکارا دلائیے۔

ایک مظلومہ ۔ حیدرآباد۔

جواب:- ظلم کو اتنا بھی برداشت نہ کیا جائے کہ ظلم ظالم کی فطرت ثانیہ بن جائے۔ آپ کے معاملہ میں ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ کی خاموشی صبر و تحمل اعلیٰ تعلیم اور بردباری کا دوسرا مطلب لیا گیا۔ اگر آپ یا آپ کے والدین روز اول ہی ظلم و زیادتی کے خلاف سخت احتجاج کرتے اور قانونی کارروائی کی دھمکی دیتے تو آپ کو اتنے طویل عرصہ تک ظلم برداشت کرنا نہ پڑتا۔ آپ کے شوہر اس قابل ہیں کہ انہیں سخت سزا دلائی جائے اور ان کا صحیح مقام بتایاجائے۔

اگر آپ اپنی شکستہ ہمت کو یکجا کریں تو آپ کے ظالم شوہر کے خلاف زیر دفعہ498(A) تعزیرات ہند کارروائی کرواکے انہیں گرفتار کروایا جاسکتا ہے جس کا لازمی نتیجہ ان کی ملازمت سے معطلی کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ اس کے بعد وہ ظلم کرنا بھول جائیں گے۔ اس عمل کے بعدوہ آپ کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

آپ کو دوسرا کام یہ کرنا ہوگا کہ ان کو گھر سے بے دخل کردیں کیوں کہ وہ آپ کے گھر میں قیام پذدیر ہیں۔ جب ان پر کافی دباؤ پڑے گا تو خلع کے لئے راضی ہوجائیں گے اور اس طرح آپ کی 27 سالہ مصیبت ختم ہوجائے گی۔27سالہ شادی شدہ زندگی کے بعد بیوی کو اس قسم کی اذیت رسانی ایک مکروہ اور گھناؤنا عمل ہے جس کی انہیں قرارواقعی سزا ملنی چاہیے۔

وہ شراب پینے اور رشوت کھانے کے عادی ہیں اور لازمی طور پر آپ جیسی صابرہ اور شریف النفس خاتون کا ایسے شخص سے نباہ نہیں ہوسکتا۔ کینسر جب تکلیف دہ ہونے لگتا ہے تو اسے سرجیکل آپریشن سے نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ آپ کو بھی بہت بڑے لیگل آپریشن کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *