[]
٭ طلاق‘ خلع‘ عبادات ماضی کی بات بن جائے گی۔
٭ ہر طلاق کے لئے عورت یا مرد کو عدالت سے رجوع ہونا پڑے گا۔ از خود طلاق نہ دی جاسکے گی اور نہ ہی لی جاسکے گی۔ عدالت اگر محسوس کرے کہ علاحدگی ضروری نہیں تو درخواست مسترد کردی جائے گی جیسا کہ ہندوؤں اور عیسائیوں‘ سکھوں کے مقدمات میں ہوتا ہے۔
٭ سب سے زیادہ متاثر مسلمانوں کا قانونِ وراثت ہوگا۔ جائیداد چاہے موروثی ہو یا خود کی کمائی ہوئی ‘ اس کے حقدار بیٹا بیٹی ‘ بیوی سب برابر برابر ہوجائیں گے۔
٭ عورت اور مرد کا حق مساوی ہوگا۔اسلامی قانونِ وراثت میں عورت کا حق بمقابلہ ٔ مرد نصف ہے۔
٭ قانون کے نفاذ کے بعد اسلامی قانونِ زبانی ہبہ کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی لہٰذا بروقت اقدام کی ضرورت ہے۔
خدانخواستہ قانون (یونیفارم سیول کوڈ) اگر نافذ ہوجائے تو ہندوستان میں مسلمانوں میں ایک ہیجانی صورت پیدا ہوجائے گی۔ اس بات کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ملک گیراحتجاج ہوگا اور کبھی کبھی ایسے احتجاجات پرتشدد ہوجاتے ہیں یا بنادیئے جاتے ہیں۔
قانون کے نفاذ کے بعد بیٹا یا بیٹی ماں باپ کی زندگی ہی میں جائیداد پر اپنا حق جتانا شروع کردیں گے۔ باپ اپنی جائیداد اپنی مرضی سے فروخت نہیں کرسکے گا اور اگر ایسی صورت ہو تو اسے اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ مل کر فروخت کرنا ہوگا جیسا کہ ہندوؤں کے ساتھ ہوتا ہے۔
ایسی صورت پیش آنے سے پہلے ہی موجودہ قانونِ ہبہ کو ہی غنیمت سمجھنا چاہیے اور اس قانونی موقف کا بہتر سے بہتر استعمال کرنا چاہیے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی کیوں کہ وقت کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔