[]
اس مقدمہ کے واقعات اندھ بھگت موکلین کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہوں گے۔ افسوس کہ ہمارے اپنے لوگ ان لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر اپنا سب کچھ لٹادیتے ہیں۔ برباد ہوجاتے ہیں اور کسی خوف کے زیرِ اثر خاموش رہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ اس مقدمہ کے واقعات پر روشنی ڈالی جائے اس بات کا اظہار ضروری ہوجاتا ہے کہ مسلم موکلین کو ایک سخت وارننگ جاری کی جائے تاکہ وہ مفاد پرست پیشہ ور نما لٹیروں سے محفوظ رہیں اور اپنے مقدمات کی متوازی نگرانی ماہر وکلاء سے کروائیں تاکہ انہیں ہر قدم پر صحیح رہنمائی مل سکے اور ان کے مقدمات کی نوعیت کا علم ہوسکے کہ آیا ان کے ملاح ان کی کشتی پارکروائیں گے یا بیچ دریا میں ان کا سفینہ غرق کردیں گے۔
حالاتِ مقدمہ کچھ ایسے ہیں کہ (S.C) طبقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے چالیس سال قبل قطب اللہ پور کے قریب ایک گاؤں میں محفوظ قولدار سے اراضی خریدی۔ ساری رقم ادا کردی اور اس اراضی پر پلاٹنگ کی اس عمل میں دوسرے فریقوں نے اعتراض کیا اور مقامی سیول عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور ساتھ ہی ہائیکورٹ میں بھی ایک مقدمہ چل رہا تھا۔
ان بدنصیب افراد سے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کے ایک سینئر ایڈوکیٹ مسٹر وینکٹ رمنا بہت اچھے ایڈوکیٹ ہیں اور ان کے پاس مقدمات کو جیتنے کا فن ہے ۔ چنانچہ یہ افراد ایڈوکیٹ سے رجوع ہوئے اور ایڈوکیٹ نے کہا کہ مقدمہ جیتنے کے صد فیصد امکانات ہیں۔ ایڈوکیٹ نے اپنی فیس تیس لاکھ روپیہ نقد وصول کی اور پیروی شروع ہوئی۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ موکلین نے ایڈوکیٹ سے کہا کہ پیروی ٹھیک نہیں ہورہی ہے کیوں کہ آپ عدالت میں حاضر نہیں ہوتے ہیں اور اپنے جونیئر ایڈوکیٹس کے حوالے کیس کردیا ہے۔
ایڈوکیٹ نے کہا کہ اگر آپ مقدمہ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو دس کروڑ روپیہ ادا کرنا ہوگا کیوں کہ اس رقم کا مطالبہ دو ہائیکورٹ کے ججس کررہے ہیں۔ احتیاطاً دونوں معزز ججس کے نام کا اظہار نہیں کیا جارہا ہے تاہم ان کا نام F.I.R میں درج ہے۔
یہ رقم بہت بھاری تھی ۔ آخرِ کار سات کروڑ روپیوں میں بات ختم ہوئی اور یہ رقم دو اقساط میں نقد ادا کی گئی ۔ شکایت کنندہ کے مطابق یہ رقم بوریوں میں لائی گئی جس کی گنتی میں دو گھنٹہ کا وقت لگا۔ دو تین دن کے بعد ایڈوکیٹ نے موکلین کو مبارکباد پیش کی اور اپنی جانب سے مٹھائی دی اور کہا کہ اب آپ اپنی زمین پر جاکر درگا دیوی کی پوجا کریں۔
یہ معصوم افراد ایک جال میں پھنس گئے۔ مقدمہ جوں کا توں رہا۔ ان لوگوں نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ معاملہ الٹ گیا اور فیصلہ ان کے خلاف آیا۔ یہ موکلین ۔ ایڈوکیٹ کے گھر گئے۔ کچھ تلخ باتیں ہوئیں۔ پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس پر ایڈوکیٹ راضی ہوگئے اور دو اقساط میں ایک کروڑ روپیہ واپس کئے اورمابقی رقم ادا کرنے میں ایک ماہ کا وقت مانگا۔
جب یہ لوگ ایک مہینے کے بعد اپنا پیسہ یعنی6کروڑ روپیہ کی واپسی کا مطالبہ کرنے پہنچے تو ان لوگوںکو غنڈوں سے ڈرایا گیا اور کہا گیا کہ اگر ان لوگوں نے کسی سے شکایت کی تو انجام بہت برا ہوگا۔ ان لوگوں کے پیچھے غنڈوں کو لگادیاگیا اور ہر طرح سے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔
آخرِ کار دسمبر2023ء میں ان لوگوں نے آئی ایس سدن پولیس اسٹیشن میں ایک شکایت درج کی جس کا F.I.R ہوا۔
چونکہ معاملہ میں بہت بڑی رقم تھی اس کیس کو وہائٹ کالر کرائم پولیس یعنی(CCS) سے رجوع کیا گیا جس کی وصولی پر (CCS) پولیس نے (F.I.R. 26/2024) جاری کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا ۔ اس مقدمہ میں جو جرائم ہیں ان کی تفصیل درج کی جاتی ہے۔(Sec.420,406,506 & Sec. 3 S.C.S.T. Act)
تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے کسی وقت بھی گرفتاری ہوسکتی ہے کیوں کہ ایک جرم ناقابل ضمانت ہے۔ اس مقدمہ میں بلا وجہ معقول بے بنیاد الزامات دو معزز ججس پر لگائے گئے جو اپنی لیاقت ‘ دیانت داری اور راست گفتاری کیلئے شہرت رکھتے ہیں تاہم F.I.R میں ان کے نام درج ہیں۔
یہ مقدمہ ان لوگوں کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہوگا جو لوگوں یعنی مفاد پرست دوست احباب کی باتوں میں آکر اپنے قیمتی مقدمات دیانت و ایمانداری سے عاری وکلاء کے حوالے کردیتے ہیں اور پھر اپنے مقدمات کی خبر تک نہیں لیتے۔ بھاری مالیت کے مقدمات اگر کسی ایڈوکیٹ کے حوالے کئے جائیں تو حفظِ ماتقدم کے تحت اپنے مقدمہ کی ایک متوازی فائل بنائیے اور قابل وکلاء سے (Second Opinion) حاصل کیجئے۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کے مقدمہ کی سمت کیا ہے۔
اگر آپ کے ایڈوکیٹ کچھ ایسا کہیں کہ میں جج صاحبان سے اچھے تعلقات رکھتا ہوں اور آپ کو من مرضی فیصلہ دلاسکتا ہوں تو کبھی اعتبار مت کیجئے اور فائل اور (NOC) لے لیجئے۔
بعض قابل ایڈوکیٹ آپ کے مقدمہ کی نوعیت دیکھتے ہی بتاسکتے ہیں کہ مقدمہ کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ آپ کو مقدمہ بازی سے باز رہنے کی رائے مل سکتی ہے۔
لہٰذا بہت ہی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ایک ایڈوکیٹ کی بددیانتی کی وجہ سے نسلیں برباد ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ورنہ بعد میں پچھتانا پڑے گا۔