[]
چوبیس فروری کو یوکرین پر روسی حملے کی دو برس مکمل ہو رہے ہیں اور اس وقت روس اس تباہ شدہ شہر پر تباہ کن حملے کر رہا ہے۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر اتحادی ممالک سے مزید مالیاتی اور فوجی معاونت کے حصول کی کوشش کریں گے تاکہ انہیں روس کے خلاف لڑائی میں مدد ملے۔ یوکرینی صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس کے خلاف موثر لڑائی کے لیے یوکرین کو ہتھیاروں کی اشد ضرورت ہے۔ اسلحے کی کمی کے پیش نظر یوکرین نے حال ہی میں اولدِوکا کے علاقے سے اپنے فوجی پیچھے ہٹا لیے تھے، کیوں کہ یہاں یوکرین کو شدید روسی حملوں کا سامنا تھا۔
یوکرینی صدر زیلنسکی میونخ سکیورٹی کانفرنس میں روس کے ساتھ جاری جنگ میں فوجی نوعیت کی معاونت پر گفتگو کر رہے ہیں۔ اس سے قبل جرمنی اور فرانس نے یوکرین کے لیے طویل المدتی عسکری معاونت پر اتفاق کیا تھا۔ زیلنسکی دو برس قبل اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے اور اس وقت روس نے یوکرین پر حملہ نہیں کیا تھا۔ روسی حملے سے قبل بھی اپنے خطاب میں زیلنسکی نے روسی خطرات کا ذکر کرتے ہوئے اتحادی ممالک سے مدد طلب کی تھی۔ اب بھی ان کی اپیل تو وہی ہے مگر حالات مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔
یہ جنگ اب تیسرے برس میں داخل ہو رہی ہے اور روسی فوج اب بھی حملے روکتی نظر نہیں آ رہی۔ دوسری جانب ہفتے کو یوکرینی فوجی سربراہ آلیکساندر سیرسکی نے کہا تھا کہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے انہوں نے اپنے فوجیوں کو اودلوسے پیچھے ہٹنے کے احکامات دیے ہیں۔ چوبیس فروری کو یوکرین پر روسی حملے کی دو برس مکمل ہو رہے ہیں اور اس وقت روس اس تباہ شدہ شہر پر تباہ کن حملے کر رہا ہے۔
زیلنسکی متعدد یورپی ممالک کے دورے میں مسلسل کہہ رہے ہیں کہ یوکرین کو گولا باردو کی شدید قلت کا سامنا ہے اور اسی تناظر میں اسے روس کے ساتھ لڑائی میں مسائل درپیش ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ یوکرین کو عسکری مدد مہیا کرنے والا سب سے بڑا ملک امریکہ ہے اور چوں کہ اس برس امریکہ میں صدارتی انتخابات منعقد ہونا ہے، اس سبب یوکرین کے لیے امداد بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو رہی ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین کی جانب سے بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ وہ یوکرین سے وعدہ کردہ ایک ملین گولوں میں سے نصف کے قریب ہی مہیا کر پائے گی۔
;