ایران كے صدارتی انتخابات كا تفصیلی جائزه

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین نے 1979 میں رہبر (ولی فقیہ) کو ریاست کے سربراہ جب کہ صدر اور وزیر اعظم کو حکومت کے سربراہ کے طور مقرر کیا تھا، لیکن وزیر اعظم کا عہدہ 1989 میں ختم کر دیا گیا اوراب صدارتی نظام  رائج ہے اور وہی ملکی معاملات اور نظم و نسق چلاتا ہے۔

لہذا ایران کے صدر (اس وقت آیت اللہ ابراہیم رئیسی ہیں) سپریم لیڈر کے بعد ملک کے اعلیٰ ترین عہدیدار ہیں جو گارڈین کونسل کے منظور کردہ امیدواروں میں سے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔

صدر کے اختیارات اور فرائض

جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے مطابق صدر آئین کے نفاذ کا ذمہ دار اور ایگزیکٹو برانچ کا سربراہ ہوتا ہے۔

صدر پر بھاری حکومتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جیسے دوسرے ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے متعلق معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کرنا، قومی منصوبہ بندی، بجٹ اور بعض حکومتی تقرریوں جیسے وزراء، گورنرز اور سفیروں کی پالیمنٹ کی تصدیق سے مشروط تقرری صدر کے فرائض میں سے ہے۔ 

نیز، ایران کے صدر سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سربراہ، ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے سربراہ اور سوشل میڈیا کی سپریم کونسل کے سربراہ ہیں۔

بعض ممالک کے برعکس ایران میں صدارتی دفتر ایران کی خارجہ پالیسی، مسلح افواج یا ایٹمی پالیسی پر مکمل نگرانی اور کنٹرول نہیں رکھتا، مذکورہ بالا تمام امور رہبر معظم کی براہ راست نگرانی میں ہوتے ہیں۔

آئین کی رو سے صدر کے انتخاب کا طریقہ کار

ایران کے صدر کا انتخاب عوام کے ووٹوں سے چار سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے اور اسے لگاتار دو بار سے زیادہ اس عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔

ملکی آئین کے 117 ویں آرٹیکل کے مطابق صدر کا انتخاب شرکاء کے ووٹوں کی قطعی اکثریت سے ہوتا ہے، لیکن اگر پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو اتنی اکثریت حاصل نہیں ہوتی ہے تو دوسری بار ووٹنگ اگلے ہفتے کے جمعے کو ہوتی  ہے۔ دوسرے دورے کے انتخابات میں پہلے راؤنڈ میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدواروں میں سے صرف دو ہی حصہ لیتے ہیں، لیکن اگر زیادہ ووٹ لینے والے کچھ امیدوار الیکشن سے دستبردار ہو جاتے ہیں تو پہلے راؤنڈ میں دوسروں سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کو دوبارہ نامزد کیا جائے گا۔ 

ووٹنگ پورے ملک میں ایک دن میں اور کم از کم دس  گھنٹوں کے اندر انجام پاتی ہے۔ ہر انتخابی دور میں، ہر اہل شخص برتھ سرٹیفکیٹ پیش کر کے صرف ایک بار اور ایک پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 99 کے مطابق گارڈین کونسل صدارتی انتخابات کی نگرانی کی ذمہ دار ہے۔

صدر کی کیا شرائط اور خصوصیات ہونی چاہئیں؟

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدارتی امیدوار کے لیے متعدد صفات کا حامل ہونا ضروری ہے، جس میں سیاسی اور مذہبی (رجال) میں سے ہونا، ایرانی نژاد، شیعہ، انتظامی  صلاحیتوں کا حامل صاحب تدبیر، اچھی یا نیک شہرت کا مالک ہونا، امانت داری اور تقویٰ وغیرہ شامل ہیں۔

الف: صدر کا ملک کے مذہبی اور سیاسی رجال میں سے ہونا ضروری ہے:

رجال مذہبی کا معیار:

1. ولایت مطلقہ فقیہ پرعقیدہ اور اس سے عملی وابستگی۔

2. عقیدے میں ثبات و استقامت، اسلامی عقائد، احکام اور اخلاق کی پابندی، بشمول اپنے واجبات کی انجام دہی اور ترک محرمات میں شہرت رکھتا ہو۔

3. دین اسلام اور شیعہ مذہب کی صداقت کو ثابت کرنے کی حد تک دین اور شیعہ مذہب کے عقائد و اصولوں کے میدان میں ضروری معلومات سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

4. لوگوں کے مذہبی امور کے لیے ذمہ داری کا احساس کرنا اور معاشرے میں مذہبی اور انقلابی اقدار کو فروغ دینا، جن میں قلبی یقین، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حوالے سے شہرت، اور دینی شعائر کی ترویج کے لیے عملی جد و جہد شامل ہے۔

5. گفتارو رفتارمیں ایمانداری اورانصاف کا حامل ہونا جس کے لئے سابقہ عہدوں اور ذمہ داریوں سے متعلق رپورٹس، اور متعلقہ اعداد و شمار کی بنیاد پر جانچ پڑتال شامل ہے۔

رجال سیاسی کا معیار

1. امام خمینی (رح) کی تحریک اور اسلامی نظام کی تشکیل اور اس کے تسلسل کے بارے میں ضروری معلومات اور تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت کا حامل ہونا۔

2. اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام، اسلامی انقلاب اور آئین کے ساتھ عملی وابستگی، نیز اس قانون کے اصولوں اور اختیارات کی حدود اور تینوں قوتوں (مقننہ، عدلیہ اور منتظمہ) کے دائرہ کارسے بھرپور واقفیت اور اسی طرح ملکی  بنیادی ادارے جیسے ایکسپیڈینسی کونسل، ماہرین کی کونسل، کونسلز اور مسلح افواج کی متناسب جانکاری۔

3. اسلامی انقلاب کے بعد فتنوں، مغربی دھاروں اور ملک میں عالمی نظام تسلط کے حامیوں اور خطرات کے بارے میں واضح موقف اور شفاف اقدامات رکھتا ہو۔

4. ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی امور کے بارے میں گہری واقفیت اور آگاہی کے ساتھ ساتھ انقلابی اصولوں اور معیارات کی بنیاد پر موجودہ اور مستقبل کے مسائل کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت، جیسے ملک کی  آزادی اور علاقائی سالمیت کی حفاظت، تسلط پسند طاقتوں سے بیزاری اور مستکبرین کے خلاف مظلومین اور مستضعفین کی حمایت اور تمام مسلمانوں کے حقوق کا دفاع۔ 

5. شہری حقوق اور قانونی اور جائز آزادیوں کے تحفظ  کے لیے ہمہ جہت کوششوں کا اچھا ریکارڈ، قومی اتحاد کو مضبوط بنانے، اسلامی نظام  اور قومی مفادات کو ذاتی، گروہی، نسلی اور جماعتی مفادات پر ترجیح دینے والا ہو۔

ب. ایرانی نژاد (ایرانی الاصل) ہونا: اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ لفظ “اصل” میں باپ، نسل اور خاندان کے معنی بھی شامل ہیں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدارتی امیدوار کا نسل، ریشہ اور اولاد کے لحاظ سے ایرانی ہونا ضروری ہے۔ امیدوار کے پاس اصل ایرانی شہریت ہونی چاہیے، اکتسابی شہریت قابل قبول نہیں۔

ج- ایران کی شہریت رکھتا ہو: اس شرط سے مراد امیدوار کی موجودہ حیثیت ہے، جس نے ایران کے ساتھ شہریت کا رشتہ برقرار رکھا ہو؛ کیونکہ بعض لوگ ایرانی نژاد ہو سکتے ہیں لیکن ان کے پاس ایران کی موجودہ شہریت نہیں ہے۔ ایسے افراد یقینی طور پر امیدوار نہیں ہو سکتے۔

د: انتظامی صلاحیت کی شرط: ایک شخص جو ملک کی انتظامیہ کے لیے امیدوار ہے اس معاملے میں مطلوبہ صلاحیت کا حامل ہونا ضروری ہے اور اس شرط کو پورا کرنے کے لیے امیدوار کو امتحان دینے یا ملک کے اعلیٰ ترین سطح کے تعلیمی ریکارڈ یا انتظامی کارکردگی کا ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ھ: مدیریت کا حامل ہونا: صدارتی امیدوار کو مستقبل بین اور دور اندیش ہونا چاہیے۔ اسے فیصلوں میں مستقبل کی صورت حال پر غور کرنا چاہیے خاص طور پر خارجہ تعلقات میں کہ جو مسلسل ترقی کر رہے ہیں اور اسی طرح ملکوں موقف بھہ ہمیشہ اونچ نیچ کے شکار رہتے ہیں، لہذا صدراتی امیداور ان معاملات کی حقیقی سوجھ بوجھ اور درست شناخت رکھتا ہو۔ 

و: نیک شہرت، اور امانت داری: صدارت ایک امانت ہے جو صدر کو سونپی جاتی ہے، اور اس لیے ایسے شخص کو بری شہرت کا حامل نہیں ہونا چاہیے کہ عوام ان سے قومی امانت کی حفاظت کے سلسلے میں نا امید ہو جائیں۔  

ز: تقویٰ؛ امیدوار کو حقیقی معنوں میں پرہیزگار ہونا چاہیے اور تمام جہتوں میں تقویٰ کا حامل ہونا چاہیے۔ درحقیقت، اگر یہ ایک شرط کسی شخص میں پوری طرح ہائی جائے تو دوسری شرائط  کی جانچ  ثانوی قرار پائے گی۔ 

منصب صدارت تک پہنچنے کا طریقہ کار

ایران میں صدارت کے منصب تک پہنچنے کے لیے کم از کم چند اقدامات یا مراحل ضروری معلوم ہوتے ہیں، جو یہ ہیں:

– ایران کے آئین کی گارڈین کونسل کی طرف سے صدارتی امیداور کی صلاحیت کی تصدیق

– انتخاب میں کل ووٹوں کے کم از کم نصف اور موصول شدہ ووٹوں سے ایک ووٹ

– اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر کی طرف سے صدارتی فرمان کا نفاذ

– صدر کی پارلیمنٹ میں اعلانیہ حلف برداری۔

موت، استعفیٰ یا برطرفی کی صورت میں کیا طریقہ کار ہے؟

آئین کے آرٹیکل 120 کے مطابق، جب بھی اس قانون کے مطابق امیدواروں میں سے کسی کی اہلیت کی تصدیق ووٹنگ سے پہلے دس دن کے اندر ہو جاتی ہے تو انتخاب دو ہفتے کے لیے موخر کر دیا جائے گا۔ اگر پہلے راؤنڈ میں اکثریت رکھنے والے دو افراد میں سے ایک پہلے راؤنڈ اور دوسرے راؤنڈ کے درمیان فوت ہو جاتا ہے تو انتخابی مدت دو ہفتوں کے لیے بڑھا دی جائے گی۔

اس کے علاوہ، آئین کے آرٹیکل 131 کے مطابق صدر کے استعفیٰ، برطرفی یا موت کی صورت میں، ” صدر کا معاون اول مدت کے اختتام تک اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔” معاون اول کی موت کی صورت میں یا دیگر مسائل جو اسے اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکتے ہیں، اور اسی طرح اگر صدر کا معان اول نہ ہو تو وہ اس کی جگہ اسی اختیارات کے حامل دوسرے شخص کو مقرر کرے گا۔

جاری ہے…

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *