[]
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کے رواز ایک تازہ درخواست کو دیگر درخواستوں کے ساتھ جوڑ دینے کا حکم دیا جس کے ذریعہ 2019 کے قانون کی بعض دفعات کے جواز کو چیالینج کیا گیا ہے جن کے ذریعہ تین طلاق بیک وقت دینے کے عمل کو قابل سزا جرم بنادیا گیا ہے۔
اس قانون کی خلاف ورزی پر تین سال تک کی سزائے قید ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے وی پردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بنچ نے اس درخواست کی دیگر زیر التواء درخواست کے ساتھ سماعت کرنے سے اتفاق کرلیا جن پر 2019 میں مرکز کو نوٹسیں جاری کی گئی ہیں۔
تازہ درخواست اترپردیش میں اعظم گڑھ کے ساکن عامررشادی مدنی نے داخل کی ہے۔ مختصر سی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ان دفعات سے مردوں کے حقوق کی خلاف ورزی کس طرح ہوتی ہے۔
مدنی کے وکیل نے بتایا کہ مسلم خواتین (تحفظ حقوق بر شادی) ایکٹ 2019 کی دفعات کے ذریعہ فوری تین طلاق کو جرم قرار دیا گیا ہے اور مردوں کے لئے سزا کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔
وکیل نے دعویٰ کیا کہ اس قانون کی دفعہ 3 اور دفعہ 4 ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ دفعہ 3 کے تحت تین طلاق کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے جبکہ دفعہ 4 کے تحت اس طریقہ سے فوری طور پر طلاق دینے والے شوہروں کو تین سال کی سزائے قید اور جرمنہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
بنچ نے حکم دیا کہ اس مسئلہ پر قبل ازیں دو مسلم تنظیموں جمعیت العلمائے ہند اور سمستھا کیرالا جمیعت العلماء کی جانب سے قبل ازیں داخل کی گئی دو درخواستوں کے ساتھ منسلک کردیا جائے۔ عدالت اعظمیٰ نے 23 اگست 2019 کو اس قانون کے جواز کا جائزہ لینے سے اتفاق کیا تھا۔