صیہونی رجیم غزہ کے سائنسی انفراسٹرکچر کو تباہ اور دانشوروں کا قتل عام کر رہی ہے

[]

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، الاخبار نے غزہ کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ غزہ کی یونیورسٹیوں سے حاصل کردہ تازہ ترین معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں نے دو ہفتے قبل پیش قدمی کی اور حال ہی میں بڑی تعداد میں عمارتوں کو تباہ کردیا ہے۔یوں الاقصیٰ سرکاری یونیورسٹی اور  غزہ کے شمال میں 90 فیصد اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہ ہو گئے۔

غزہ کی پٹی میں یونیورسٹی اسکوائر کو غزہ کے مصروف ترین علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر اس علاقے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا مرکز ہے اور اس میں 3 بڑی تاریخی یونیورسٹیاں شامل ہیں جن میں اسلامی یونیورسٹی، الاقصیٰ گورنمنٹ یونیورسٹی اور الازہر یونیورسٹی شامل ہیں۔ 

اسی طرح وزارت تعلیم کا مرکزی دفتر، درجنوں اسکول، بڑی لائبریریاں، پرنٹنگ ہاؤسز اور تعلیمی و تحقیقی مراکز بھی اسی علاقے میں واقع ہیں جو براہ راست صیہونی جارحیت کا نشانہ بنے۔

قابض اسرائیلی فوج نے ان تعلیمی مراکز اور یونیورسٹیوں کے ایک حصے کو بلڈوز کر دیا جب کہ دوسرے حصے پر بمباری کی ہے۔ 

غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کہ جہاں 20,000 طلباء زیر تعلیم تھے، پر قابض فوج نے براہ راست بمباری کی اور اس کے کئی حصے تباہ ہو گئے۔

دریں اثناء الاقصیٰ یونیورسٹی واحد یونیورسٹی تھی جو بمباری سے محفوظ رہی لیکن فیلڈ ذرائع کے مطابق صیہونی حملہ آوروں نے اس یونیورسٹی کو بھی بارود سے اڑا دیا۔

صہیونی حملوں کے نتیجے میں غزہ کے تعلیمی مراکز کے ساتھ پیش آنے والا ایک اور خوفناک واقعہ یونیورسٹیوں کے قیمتی وسائل کی تباہی سے متعلق ہے۔ فضائی بمباری میں شدت کے بعد قابض افواج نے وحشیانہ اور غیر ذمہ دارانہ طریقے سے ان یونیورسٹیوں کے قیمتی وسائل اور نوادرات کو منظم انداز میں لوٹا۔

مثال کے طور پر اسلامی یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری کی عمارت جس کی چھ منزلیں ہیں اور اس میں ہزاروں سال پہلے کے تاریخی نسخے اور سائنسی وسائل موجود ہیں، قابض حکومت کے حملوں کے بعد اس عظیم لائبریری کے تمام نسخے تباہ ہوگئے ہیں۔

میدانی ذرائع کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے صحن میں آپ کو ہزاروں کی تعداد میں پھٹی اور جلی ہوئی کتابیں نظر آئیں گی۔ اس وحشیانہ جارحیت کے ایک عینی شاہد کا کہنا ہے: صیہونی لٹیروں (قابض افواج) نے آکر بہت پیسہ چرایا اور یونیورسٹیوں کو تباہ کردیا۔ یہاں اب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ لوگوں کو کھانا پکانے یا گرم کرنے کے لیے باقی ماندہ آدھی جلی ہوئی کتابیں جلانا پڑ رہی ہیں۔

بنابر این کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کی تمام عمارتیں اور ساز و سامان کو منظم طریقے سے تباہ کر دیا گیا اور صیہونی فوج نے جان بوجھ کر اس یونیورسٹی پر بمباری کرنے کے بعد عمارتوں کے اندر اپنے دہشت گرد گروہ بھیج دیے تاکہ جو کچھ بچا ہو اسے تباہ یا چوری کر لیں۔

اس صورتحال میں یونیورسٹیوں کی  آدھی تباہ شدہ عمارتیں لاکھوں بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں بن چکی ہیں۔ 

الازہر تاریخی یونیورسٹی غزہ میں اعلیٰ تعلیم کے دوسرے مراکز میں سے ایک ہے جہاں پر صہیونی فوج نے الاقصیٰ یونیورسٹی اور اسلامی یونیورسٹی کی طرح بمباری نہیں کی  لیکن توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کے ذریعے یونیورسٹی کے وسائل پر ہاتھ صاف کیا۔

پھر مہاجرین نے اس یونیورسٹی کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا اور دسیوں ہزار مہاجرین وہاں آباد ہوئے۔

اس کے بعد صہیونی فوج نے یونیورسٹی کی دیواروں کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا اور اس یونیورسٹی کا صحن ایک کھنڈر کی طرح نظر آنے لگا۔

اسلامی یونیورسٹی کے ایک سیکورٹی اہلکار کا کہنا ہے: ہم نے یونیورسٹی کی حفاظت کے لیے ہنگامی منصوبہ تیار کیا تھا لیکن دشمن کی فضائی کارروائیوں نے جنگ کے پہلے 20 دنوں میں براہ راست یونیورسٹیوں کو نشانہ بنایا۔ دوسری طرف کام کو جاری رکھنا اب ممکن نہیں رہا اور متعدد ساتھیوں کے زخمی اور شہید ہونے کے بعد ہم  یونیورسٹی کے قریب ایک جگہ آباد ہو گئے لیکن غزہ شہر میدان جنگ میں تبدیل ہونے کے بعد ہم سےکچھ نہیں ہو سکا۔ 

اس ذریعے نے الاخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ہم چند دنوں بعد واپس آئے اور دیکھا کہ یونیورسٹی کی دیواریں تباہ ہو چکی ہیں اور اس کی زیادہ تر عمارتوں پر بمباری کی گئی ہے اور یونیورسٹی کا تمام سامان دشمن  نے تباہ کر دیا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر کتابیں اور سامان جلا دیا اور کتابوں کا ایک بڑا حصہ چرا لیا۔

قابل ذکر ہے کہ غاصب اسرائیلی فوج کی جارحیت سے غزہ کے تعلیمی اور سائنسی اداروں کو پہنچنے والے مادی نقصان کے علاوہ غزہ کی کئی بااثر سائنسی شخصیات کو بھی دشمن نے نشانہ بنایا۔ 

جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک صہیونی فوج نے 100 سے زائد ڈاکٹروں، سائنسدانوں اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کو قتل کیا ہے، جن میں اسلامی یونیورسٹی کے صدر پروفیسر سفیان طائی بھی شامل ہیں، جن کا شمار دنیا کی ٹاپ ٹین سائنسی شخصیات میں ہوتا تھا۔

یورو-میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں علمی اور سائنسی شخصیات کے خلاف جان بوجھ کر کئی حملے کیے ہیں اور ان کے گھروں کو جان بوجھ کر اور پیشگی انتباہ کے بغیر نشانہ بنایا ہے اور یہ لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملبے تلے دب گئے۔

اس بیان کے مطابق قابض حکومت کی جارحیت کے دوران اب تک 17 پروفیسرز، 59 سائنسدان جو کہ غزہ کی ممتاز سائنسی شخصیات کہلاتے تھے، کو شہید کیا گیا۔ 

بلاشبہ غزہ جنگ کے دوران صیہونی حکومت کی جارحیت کے نتیجے میں شہید ہونے والے دانشوروں کی تعداد ان گنت ہے جو غزہ کی یونیورسٹیوں کا علمی سرمایہ تھے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *