پھر مجھے یقین آیا کہ یادگاری مجسمے نہیں بنانا چاہئے، غزہ میں صہیونی مظالم پر حبیب احمد زادہ کا تجزیہ

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: جس دن صہیونی وزیراعظم نتن یاہو کے خلاف عالمی عدالت میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقدمہ کی شنوائی ہورہی تھی جنوبی افریقی خاتون وکیل نے بیت لحم کے چرچ کے پادری کی باتیں نقل کیں تو مجھے اسی کی دہائی کے اوائل میں آبادان کے محاصرے کے دوران پیش آنے والا واقعہ یاد آیاجب ارمنی فرقے کے چرچ کے تحت تعمیر کردہ پناہ گاہ کا ہم نے دورہ کیا تھا۔

عید کی رات تھی۔ ایک عرصے سے سولہ سالہ راقم کو کلیسا کے صحن میں موجود ایک مجسمے نے اپنی جانب متوجہ کئے رکھا تھا جس میں ایک باوقار اور باحجاب عورت کی گود میں بچہ تھا جو کلیسا کے صحن میں ہونے والے دھماکے کی وجہ انتقال کرگیا تھا۔ اس عورت کے سینے میں بھی بم کے ٹکڑے پیوست ہوگئے تھے۔ سالوں تک میں اس سوچ میں تھا کہ حضرت مریم اور حضرت عیسی مسیح کی تصویر ہوگی۔

عبرانی یا ارمنی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے مجھے صرف اتنا سمجھ آیا کہ 1915 لکھا ہوا ہے اس کے علاوہ اس تحریر سے کچھ نہیں سمجھ سکا۔ 

عید کی رات کو سال بدلنے کے دقیق وقت میں اصفہان سے دو پادری آئے تاکہ جنگ زدہ کلیسا سے باقی ماندہ اشیاء کو لے جاسکیں۔  دھماکوں اور گولہ باری سے ان پادریوں کا ڈرنا فطری تھا لیکن ہم چھے مہینوں سے ان حالات کے عادی ہوچکے تھے۔

بہرحال مجھ جیسے نوجوانوں کے لئے اس سال کی عید یادگار لمحات میں سے تھی۔ میں نے اس واقعے کو بعد میں ناول کی شکل میں منظر عام لایا۔ اس زمانے میں مجھ پر یہ بھید کھل گئی کہ اس مسجمے کا حضرت عیسی اور حضرت مریم علیہما السلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ تاریخ میں عیسائی فرقے ارمنی سے تعلق رکھنے والوں کے قتل عام کی ایک یادگار ہے۔

دی ہیگ میں عدالتی سماعت کےد وران بیت لحم کے پادریوں کےسوالات اور باتوں پر مبنی  جنوبی افریقی خاتون وکیل کے دلائل کا اس مجسمے اور اس سے متعلق ناول کے باہمی رابطے  کو اس ویڈیو میں مشاہدہ کرسکتے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *