[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ان دنوں ہم ایران میں اسلامی انقلاب کی 45ویں سالگرہ منانے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے نامہ نگار نے معروف مصری مصنف اور صحافی پروفیسر “الہامی الملیجی” کا انٹرویو کیا ہے جو کہ حسب ذیل ہے:
مہر نیوز: آپ کے خیال میں اس دور میں ایرانی قوم کو شاہ کی حکومت کے خلاف بغاوت پر مجبور کرنے والا عنصر کون سا تھا؟
یوں تو شاہی رجیم کے خلاف ایرانی قوم کی بغاوت کا سبب بننے والے بہت سے محرکات تھے جن میں سے چند کا ہم یہاں مختصراً ذکر کرتے ہیں:
پہلی صورت یہ تھی کہ اس وقت کے بادشاہ اور حکومت نے عوام کو ان تمام فطری حقوق اور آزادیوں سے محروم کر دیا جن کا آئین میں ذکر کیا گیا تھا اور وہ ان قوتوں اور شخصیات سے نمٹنے کے لیے جبر و استبداد کا طریقہ استعمال کرتے تھے جو آزادی اور جمہوریت چاہتی تھیں۔
دوسرا نکتہ شاہ کا امریکہ کے آگے تسلیم ہونا اور ملک کو امریکہ کے ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی تسلط میں دینے سے متعلق تھا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس نے اس وقت ایرانی قوم کے اقتصادی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی ڈھانچے کی تباہی میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ ایک گہری جڑوں کی حامل قوم جو پوری تاریخ میں ہمیشہ اپنے ارادوں میں آزاد رہی ہو اسے امریکی غلامی میں دیا گیا۔ شاہ کا بلاچون چرا امریکہ کی اطاعت کرنا نیز اس کے صیہونی رجیم کے ساتھ قریبی تعلقات ایک ایسا مسئلہ تھا جو ایرانی عوام کی مرضی کے برخلاف خلاف تھا۔ ایران کے عوام نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق پر زور دیا ہے اور غاصب صیہونی حکومت کے جارحانہ اقدامات کو مسترد کیا ہے۔
تیسرا عامل یا محرک یہ ہے کہ شاہ کے دور میں بہت سے سرکاری اداروں میں فساد اور مالی بدعنوانی پھیلی ہوئی تھی اور شاہی رجیم سے وابستہ کرپٹ لوگوں کی بہت حمایت کی جاتی تھی۔
لیکن ایک اور اہم سبب سماجی انصاف کی کمی یا فقدان تھا کہ جہاں بادشاہ کے قریبیوں کا محدود گروہ ملک کی دولت کے سب سے بڑے حصے پر قابض تھا جب کہ عوام کا ایک بڑا حصہ غربت اور محرومی کا شکار تھا حالانکہ ایران کا شمار قدرتی ذخائر سے مالا مال ملکوں ہوتا ہے۔
شاہی خاندان کی جانب سے ایرانی قومی دولت کی لوٹ مار اور مالی کرپشن کی سطح کا اندازہ لگانے کے لئے ہمیں یہ بتانا ضروری ہے کہ تقریباً قابل اعتماد اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شاہی خاندان کے پاس ایران کی قومی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ تھا اور ان اعدادوشمار کے مطابق، سیمنٹ انڈسٹری کا 80٪ 70٪ سیاحتی ہوٹل، 62٪ بینک اور انشورنس کمپنیاں، 40٪ ٹیکسٹائل انڈسٹری اور 35٪ آٹوموبائل انڈسٹری وغیرہ شاہی خاندان کی ملکیت تھیں۔
مہر نیوز: دنیا کے مظلوموں کی حمایت اور عالمی استکبار کے خلاف کھڑے ہونے میں امام خمینی (رح) کی فکر اور اسلامی انقلاب کے اثرات کا کس طرح جائزہ لیتے ہیں؟
امام خمینی (رح) کا موقف دنیا پر استعمار اور سامراجی تسلط کی تمام شکلوں کا فیصلہ کن اور واضح رد تھا اور انہوں نے “نہ مشرق نہ مغرب” کے نعرے کو تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعامل کی بنیاد بنایا۔ اگرچہ امام خمینی نے اپنے وقت کی دو بڑی طاقتوں کو “دنیا کو لوٹنے کے دو قطب” کہا، لیکن وہ دونوں کے درمیان واضح فرق سے واقف تھے۔جہاں اس نے امریکہ کو شیطان بزرگ اور استعمار کہا۔
امام خمینی (رح) نے عالمی استکبار کے خلاف جنگ کے لئے دنیا بھر کے مظلوموں کے اتحاد پر زور دے کر ایران کے ہدف کا اعلان کیا۔ امام خمینی نے اس نے بنیاد پر استکبار اور جبر پر مبنی عالمی معاشرے کے لیے ایک جامع تقسیم بیان کی جس کے مطابق استکباری بلاک دنیا کے دو بڑے قطب اور ان کے اتحادی اور کاسہ لیس ممالک پر مشتمل ہے جبکہ مستضعفین یا مظلوموں کے بلاک میں وہ ممالک اور قومیں شامل تھیں جو عالمی استکبار کے ظلم و تسلط اور زیادتیوں کی چکی میں پس چکی تھیں۔
امام خمینی چاہتے تھے کہ تمام حکومتیں اور قومیں دنیا کی بڑی طاقتوں اور تاریخی مجرموں کے ہاتھ ہمیشہ کے لیے کاٹ دینے کی ضرورت پر متفق ہو جائیں، تاکہ یہ استکباری درندے مظلوموں پر مزید ستم جاری نہ رکھ سکیں۔ ان کا خیال تھا کہ بعض شعبوں میں استکباری طاقتوں پر انحصار یا ان سے وابستگی خواہ اس کے عارضی فائدے ہی کیوں ہوں، قومی حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اسی لئے وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ دنیا کی استکباری طاقتوں کی بالادستی سے قطع نظر مظلوموں کے اتحاد کے ذریعے جیتا جا سکتا ہے۔
امام خمینی (رہ) کا ایک مشہور قول ہے: “اے دنیا کے مظلومو، کھڑے ہو جاؤ اور متحد ہو جاؤ اور ظالموں کو نکال باہر کرو، کیونکہ زمین خدا کی ہے اور اس کے وارث مظلوم ہیں، اور آخر میں مظلومین اور مستضعفین ہی دنیا کے تمام مستکبروں پر فتح حاصل کریں گے۔”
مہر نیوز: اسلامی انقلاب کو چار عشروں سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے، ایسے میں آپ انقلاب کی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ایران کے اسلامی انقلاب کو پہلے دن سے ہی اور ان چار دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران، بہت بڑے چیلنجوں اور خطرات کا سامنا رہا ہے جس کے اثرات کا ایران کے سیاسی، سیکورٹی، میڈیا، سماجی اور مذہبی پہلووں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایران اپنے حیرت انگیز عزم کے ساتھ ان خطرات اور چیلنجوں سے نمٹنے اور انہیں مختلف میدانوں میں پیشرفت کے مواقع اور امکانات میں تبدیل کرتے ہوئے انقلاب کو محفوظ رکھنے اور اپنی حکومت کو ٹھوس اور ترقی یافتہ بنیادوں پر استوار کرنے میں کامیاب رہا۔
اس طرح ایران خطے اور بین الاقوامی منظرنامے میں ایک بڑی اور بااثر علاقائی طاقت بن گیا ہے۔ انقلابی ایران ایک الگ سیاسی نظام بنانے میں بھی کامیاب رہا جس کی ایک مخصوص شناخت اور نقطہ نظر ہے کہ جہاں عصری سیاسی تصورات جیسے جمہوریت، تکثیریت، اقتدار کی پرامن منتقلی، آزادی اظہار اور سیاسی عمل اور اسلام کی مذہبی قدریں آپس میں گھل مل گئی ہیں۔ گویا قدیم و جدید کا ایک حسین اور منفرد امتزاج ہے۔ اس طرح ایران اپنے قومی اور مذہبی تصورات کو ایک ترقی یافتہ اسلامی نظام میں ڈھالنے میں کامیاب ہوگیا۔
ایران کا اسلامی انقلاب اپنی چار دہائیوں کی زندگی کے دوران تمام تر سازشوں اور محاصروں کے باوجود نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ اس نے مختلف میدانوں جیسے سیاسی، عسکری، اقتصادی، سماجی، صحت، ثقافتی، سائنسی اور تکنیکی یہاں تک کہ کھیلوں کے میدان میں بھی حیرت انگیز ترقی کی ہے۔
سیاسی سطح پر ایران کے اسلامی انقلاب نے طاغوتی حکومت کو تہس نہس کر دیا اور حاکمیت اس ملک کے عوام کے حوالے کر دی گئی۔ اس طرح ایک عوامی خودمختاری قائم ہوئی جو ایوان نمائندگان کے آزادانہ اور براہ راست انتخابات کی ضمانت دیتی ہے، جو معاشرے کے تمام گروہوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ نیز، اس مقبول حاکمیت کے ساتھ، ایران کے عوام اپنا صدر خود منتخب کرتے ہیں۔ ایرانی انقلاب نے بڑی طاقتوں کی تسلط کا خاتمہ کرکے اس ملک کی قومی آزادی قائم کی اور دنیا کی استکباری قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مظلوموں کا ساتھ دیا۔
نیز ایران (انقلاب کے بعد) ایک نمایاں مقام پر پہنچا جس کا وہ حقدار تھا، اور آج ایران خطے میں ایک اہم اور فعال کردار ادا کر رہا ہے اور ایک اہم جیو پولیٹیکل پوزیشن رکھتا ہے۔
سائنسی میدان میں ایران کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے اور اس کے پاس بہت سی سائنسی تحقیقی سہولیات موجود ہیں جنہوں نے اسے پیداواری اور سائنسی سطح پر آگے بڑھایا ہے اور ایران کی سب سے نمایاں سائنسی اور صنعتی ترقیوں میں سے ایک ملک کا ایٹمی پروگرام ہے۔
کلی طور پر اگر ہم ان کامیابیوں کا جائزہ لینا چاہیں جو ایران نے انقلاب کے بعد سائنس، صنعت، زراعت، عسکری اور خلائی صنعتوں کے مختلف شعبوں میں حاصل کی ہیں تو یہ ایک بہت وسیع اور طویل موضوع ہوگا۔ اس لیے ہم صرف انہیں موضوعات کے مختصر اشارے پر ہی اکتفا کریں گے۔
مہر نیوز: آپ کی رائے میں اسلامی انقلاب سے فلسطینی کاز کس طرح متاثر ہوا اور کیا آپ فلسطینی کاز کی حمایت میں اسلامی انقلاب کے نقطہ نظر کی حمایت کرتے ہیں؟
ایران کے اسلامی انقلاب نے اپنے دور کا آغاز صیہونی سفارت خانے کو بند کر کے اور اس کے ملازمین کو ایران سے نکالنے سے کیا، جنہیں شاہ کی حکومت کی طرف سے خصوصی توجہ حاصل تھی۔ اور اس سفارت خانے کو فلسطین کی حریت پسند تحریک کے حوالے کر دیا۔ تاکہ ایران میں فلسطینی سفارت خانہ پہلا اور واحد دفتر ہو جو فلسطینیوں کو سفارتی مراعات دیتا ہے۔
اس طرح فلسطین کا مسئلہ انقلاب اسلامی ایران کی ترجیحات میں شامل ہو گیا اور انقلاب کے بعد اس ملک نے مختلف سیاسی، روحانی، مالی، فنی اور عسکری سطح پر فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی حمایت کی۔ اس حمایت کی بدولت فلسطینی مزاحمت نے ایسی عظیم صلاحیتیں حاصل کیں جن کے ذریعے وہ صہیونی دشمن کا مقابلہ کرنے اور صیہونی جنگی مشین کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔
ایرانی انقلاب نے محور مزاحمت کی تشکیل میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا جو خطے میں صیہونی رجیم کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے کا علمبردار ہے اور اس نے غاصب رجیم کی بہت سی سازشوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
میں ذاتی طور پر ایرانی انقلاب کی طرف سے فلسطینی مزاحمت کی وسیع پیمانے پر حمایت کے انداز کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ نقطہ نظر اور جذبہ مزاحمت پوری فلسطینی سرزمین کو صہیونی دشمن کے شر سے آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔