[]
کلونیل ریاست تقریباً تین سو سال تک حکومت میں رہی اور اس عرصے میں اس نے ایک ایسی اشرافیہ کی تربیت کی، جو اپنے رہن سہن اور اپنی زبان کے لحاظ سے انگریزوں کی نقال ہو گئی تھی۔
جب یورپی سامراج نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں،تو وہ اپنے ساتھ ایک نیا سیاسی نظام، معیشت، تعلیم اور نئی علمی معلومات بھی ساتھ لے کر آئے۔ ان بنیادوں پر انہوں نے وہاں اپنے اقتدار کو مستحکم کیا۔جب یورپی ملکوں نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی کالونیز بنائیں، تو اس عمل کی ابتدا فوجی فتوحات سے ہوئی۔ لیکن انہیں احساس تھا کہ محض فوجی طاقت کے ذریعے وہ زیادہ عرصے تک وہاں اقتدار میں نہیں رہ سکیں گے۔ ان کے خلاف بغاوتیں ہوں گی اور ان کی ساری توانائی ان بغاوتوں کو کچلنے میں ہی صرف ہو جائے گی۔ اس لیے انہوں نے دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان نوآبادیوں کے باشندوں کو اپنا وفادار بنانے کے لیے ثقافت اور علم کی طاقت کو استعمال کیا جائے۔
اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ محکوم قوموں کی روایات، اداروں اور تاریخ کو بدلا جائے تا کہ ان کی شناخت کی بنیادیں کمزور ہو جائیں۔ ان کا قومی تفاخر ختم ہو جائے اور وہ غیر ملکی اقتدار کو تسلیم کر لیں۔ یورپی نقطہ نگاہ سے اس طرح کا کونیل ازم اس لیے ضروری تھا کہ وہ محکوم قوموں کی تاریخ، ثقافت، وہاں بولی جانے والی زبانیں، معاشرے کی سماجی تقسیم، جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کے اثر و رسوخ کو جاننے کے لیے ان پر تحقیق کریں اور یہ پالیسی بنائیں کہ انہیں کس طرح غیر ملکی امداد کے لیے استعمال کیا جائے۔
یہاں ہم ہندوستان کی مثال دینا چاہتے ہیں۔ چونکہ اس کی کوئی تاریخ نہیں تھی، اس لیے اولین طور پر یہ تاریخ سیاسی اہلکاروں نے لکھی۔ تاریخ نویسی میں مزید اضافہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین نے کیا۔ اس لیے ہندوستان کی نئی تاریخ برطانوی حکومت سے ہوئی۔
ہندوستان کے معاشرے کو سمجھنے کے لیے ان کی عادات، روایات اور مختلف علاقوں کے جغرافیائی حالات اور آب و ہوا کے اثرات کے لیے نئے علوم سے مدد لی گئی۔ مثلاً ہندوستان کے مختلف نقشے تیار کیے گئے۔ مردم شماری کے ذریعے معاشرے کے مذہب اور ذات پات کے بارے میں معلومات اکٹھا کی گئیں۔ ہر صوبے کی تاریخ، جغرافیہ اور رسمیں، وہاں بسنے والے لوگوں میں طبقاتی فرق، گندم کی پیداوار، تجارت اور بازار کے بارے میں اور اشیاء کی قیمتوں کے تعین کے بارے میں معلومات، صوبے کے اہم شخصیات کا ذکر، جن میں پیر اور جاگیردار بھی شامل تھے، ہر طرح کی معلومات جمع کی گئیں۔ یہاں تک کہ صوبے میں بولی جانے والی زبانوں کی تفصیلات بھی۔ یہ سب کچھ ان گزیٹیئر (Gazetteer) کا حصہ تھا، جو برطانوی عہدیداروں نے مقامی لوگوں کی مدد سے تیار کیے تھے۔ یہ گزیٹیئر آج بھی تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں نہ تو ان گزیٹیئر میں کوئی اضافہ ہوا اور نہ ہی نئے گزیٹیئر تیار کیے گئے۔
کلونیل دور میں سیاسی، معاشی اور سماجی بحرانوں پر سروے کرائے گئے۔ دستاویزات تیار کی گئیں۔ اب یہ سب کچھ آرکائیوز میں محفوظ ہے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے مواد فراہم کرتا ہے۔ کلونیل ازم نے ایک ایسا سیاسی نظام نافذ کیا تھا کہ جس میں اقتدار تو ان کے پاس تھا مگر مقامی باشندے اس نظام کی گرفت میں تھے۔ آفس میں کام کرنے والے کلرک، ٹیکس جمع کرنے والے کلکٹر، پولیس کے تھانیدار اور سپاہی، یہ سب برطانوی مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ سازشوں اور مخالفتوں کو روکنے کے لیے CID اور مخبری کے کئی ادارے تھے۔ ان کی تمام رپورٹیں آج بھی موجود ہیں۔
کلونیل ریاست نے خود کو مستحکم کرنے کے لیے ہر شعبۂ زندگی کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے قوانین نافذ کیے تھے۔ اخبارات اور پبلشروں کو حتیٰ کہ پمفلٹس شائع کرنے تک کے لیے حکومت سے ڈیکلیریشن لینا پڑتا تھا۔ خلاف ورزی کی صورت میں پریس اور ضمانت دونوں ضبط ہو جاتے تھے۔
کلونیل ریاست نے عدلیہ کے نظام کو بھی بدل ڈالا تھا۔ اب وکیلوں کا نیا طبقہ پیدا ہو گیا تھا اور عدالتیں مقدمات پر بحث و مباحث کا مرکز بن گئی تھیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے ہندوستان میں جیلیں متعارف کرائیں۔ جگہ جگہ نئی جیلیں تعمیر ہوئیں، جہاں شہریوں کو رکھا جاتا تھا۔ انگریز قیدیوں کے لیے جیل علیحدہ ہوتی تھی کیونکہ حکومت نہیں چاہتی تھی کہ انگریز مجرم ہندوستانی قیدیوں کے ساتھ رہیں کیونکہ اس سے ان کی ‘نسلی برتری‘ پر برا اثر پڑتا تھا۔
ملکی انتظام کے لیے انگریز نوجوانوں کو برطانیہ میں تربیت دی جاتی تھی جو انڈین سول سروسز کا امتحان پاس کر کے آتے تھے۔ ان کا تقرر ہندوستان میں اعلیٰ عہدوں پر ہوتا تھا۔ ان کے اختیارات بھی بہت ہوتے تھے۔ ان کی تنخواہیں بھی اچھی خاصی ہوتی تھیں۔ اس لیے یہ محنت اور ایمانداری سے کام کرتے تھے۔
کلونیل ریاست نے اپنے مقاصد کے لیے تعلیم کو بھی استعمال کیا۔ خاص طور سے اسکول کی نصابی کتب میں ان ہندوستانی شخصیات کا مذاق اڑایا جاتا تھا، جنہوں نے ان کے خلاف مزاحمت کی تھی، جیسے حیدر علی اور ٹیپو سلطان۔ اس کے علاوہ طالب علموں کو حکومت انگلستان کی برکتوں کا سبق دیا جاتا تھا۔
کلونیل ریاست تقریباً تین سو سال تک حکومت میں رہی اور اس عرصے میں اس نے ایک ایسی اشرافیہ کی تربیت کی، جو اپنے رہن سہن اور اپنی زبان کے لحاظ سے انگریزوں کی نقال ہو گئی تھی۔ دوسری جانب عوام کی اکثریت پسماندگی ہی میں رہی اور ان کی زندگی میں کوئی انقلابی تبدیلی نہ آئی۔ کلونیل دور کی یہ اشرافیہ نقالی کے باعث معاشرے میں کوئی تبدیلی نہ لا سکی اور آج بھی یہ انگریزی دور کو یاد کر کے افسردہ ہو جاتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;