[]
سویڈن کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ قرآن سوزی کی اجازت کے لیے مزید درخواستیں دی گئی ہیں لیکن ان کے نتیجے میں “کچھ سنگین ہونے کا واضح خطرہ” ہے۔ سویڈن میں قرآن سوزی کے واقعات پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل ہوا۔
سویڈن کے وزیر اعظم اولف کرسٹرسن نے کہا کہ ان کے ملک میں پولیس انتظامیہ کو اسلام مخالف مظاہروں کی اجازت دینے کے لیے بڑی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے “میں کافی پریشان ہوں۔ “
اسٹاک ہولم میں جمعرات کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، اعتدال پسند سیاسی جماعت کے رہنما نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ایسے مظاہروں کے دوران مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو جلانے کے واقعات پیش آسکتے ہیں۔ کرسٹرسن نے خود کو اس معاملے سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ سچ بات یہ ہے کہ ایسے مظاہروں کی اجازت دینا پولیس پر منحصر ہے اور حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ “اگر ان لوگوں کی درخواستیں منظور کی جاتی ہیں، تو ہمیں کچھ ایسے دنوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جہاں کچھ سنگین ہونے کا واضح خطرہ ہے، میں اس بارے میں بہت پریشان ہوں کہ اس سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔” کرسٹرسن کی طرح کی ملکی انٹیلیجنس سروس ‘ساپو’ کے سربراہ چارلوٹ فان ایزین نے بھی ایک علیحدہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ایسے مظاہروں سے سکیورٹی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
فان ایزین کا کہنا تھا کہ سویڈن اور پڑوسی ملک ڈنمارک میں قرآن سوزی اوراس کی بے حرمتی کے واقعات کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ ہے اور یہ ملک اسلام پسندوں کا “ترجیحی” ہدف بن گیا ہے۔ سویڈن کے انٹیلیجنس سربراہ نے کہا، “سویڈن ایک روادار ملک سمجھا جاتا تھا لیکن اب اسے اسلام مخالف ملک کے طورپر دیکھا جارہاہے۔”
قرآن سوزی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین نے 20 جولائی کوعراق میں سویڈش سفارت خانے کو نذر آتش کردیا تھا۔ انہوں نے امریکہ، اسرائیل، سویڈن کے پرچم بھی جلائے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ سویڈن قرآن سوزی کے واقعات پر پابندی عائد کرے۔ سویڈن حکومت نے اسٹاک ہولم میں قرآن کے صفحات جلانے کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کی حفاظت کی قانونی طورپر پابند ہے۔
سویڈن میں مذہبی کتابوں کی توہین پر قانوناً پابندی نہیں ہے اور ملکی آئین عوامی مظاہروں کے حق کی حمایت کرتی ہے۔ پولیس کسی بھی مظاہرے کی اجازت دینے سے قبل صرف کسی بڑی گڑبڑی یا عوامی حفاظت کے خطرے کو مدنظر رکھتی ہے۔ سویڈش وزیر خارجہ ٹوبیاس بل اسٹروم نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “سویڈن کی ریاست قرآن کو جلانے کی اجازت یا اس پر پابندی نہیں لگاتی کیونکہ سویڈن کے آزادی اظہار کے قوانین کے تحت اس کی اجازت ہے۔”
انہوں نے کہا کہ”چند ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سویڈن کی ریاست اس کے پیچھے ہے یا ایسے اقدامات کرنے والوں کو معاف کرتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرتے۔ یہ سب افراد کی طرف سے کیے جانے والے اعمال ہیں، لیکن وہ یہ آزادی اظہار رائے کے قوانین کے دائرہ کار میں رہ کر کرتے ہیں۔” سویڈش وزیر خارجہ کا کہنا تھا،”ہماری بنیادی اور سب سے اہم ذمہ داری سویڈن کے مفادات نیز ملک او ربیرون ملک رہنے والے سویڈش شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اس وقت جو پیش رفت ہو رہی ہیں ہمیں انہیں سنجیدگی سے لینا ہوگا۔”
وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ متعدد مسلم ملکوں کے وزرائے خارجہ کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بھی رابطے میں ہیں اور وہ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل سے بھی بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان مسائل پر بات کریں گے اور اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ یہ ایک طویل مدتی مسئلہ ہے، اس کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔ سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن سوزی کے واقعات کے بعد او آئی سی نے 31جولائی کو ایک ہنگامی میٹنگ طلب کیا ہے۔
سویڈش مفادات کو بین الاقوامی سطح پر نقصان
قرآن سوزی کے واقعات کے نتیجے میں عراق سے سویڈش سفیر کی بے دخلی کے علاوہ اسٹاک ہولم اور ترکی ایک بار پھرٹکراو کی حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ کئی ماہ کی کوششوں کے بعد 11جولائی کو لتھوانیا میں نیٹو سمٹ کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوآن نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن انقرہ کا اب کہنا ہے کہ قرآن سوزی کے واقعات کو روکنے میں سویڈن کی نااہلی نے اسٹاک ہولم کے حوالے سے تشویش پیدا کردی ہے۔
سویڈن کے وزیر برائے سول ڈیفنس نے بدھ کے روز روس پر الزام لگایا کہ وہ سویڈن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور نیٹو میں شامل ہونے کی ان کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔