[]
حیدر آباد: مشیر حکومت محمد علی شبیر نے انہیں ریاستی کابینہ میں شامل نہ کئے جانے بی آر ایس کے کارگزار صدر کے ٹی راما راؤ کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کے ٹی آر کو میرے ساتھ ہمدردی ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
آپ پہلے اپنے والد کے سی آر سے سوال کریں کہ انہوں نے ریاست کے 118 حلقے چھوڑ کر کاماریڈی میں میرے خلاف مقابلہ کرنے کیوں آئے تھے؟ اور جب میں کاماریڈی کے بجائے نظام آباد حلقہ سے مقابلہ کررہا تھا وہاں بھی مجھے شکست دینے کے لئے کے سی آر نے کروڑہا روپے کیوں خرچ کئے؟ ۔
آج جب کہ بی آر ایس کو کانگریس کے مقابلہ میں شرمناک شکست اُٹھانی پڑی تو انہیں اقلیتیں یاد آرہی ہیں جب کہ 10 سال تک بی آر ایس نے اقلیتوں کے ساتھ ہر شعبہ میں ناانصافی کی۔ ریاست کی 10 یونیورسٹیز میں ایک بھی مسلم وائس چانسلر مقرر نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن میں کسی مسلمان کو ممبر نہیں بنایا گیا۔
ہائی کورٹ میں ایک بھی مسلم کو گورنمنٹ پلیڈر مقرر نہیں کیا گیا۔ کانگریس پارٹی نے برسر اقتدار آتے ہی ایک مسلم ایڈوکیٹ کو ایڈیشنل گورنمنٹ پلیڈر مقرر کیا ہے۔ بی آر ایس کے دور میں اقلیتی اداروں کی تشکیل جدید کو برسوں تک نظر انداز کردیا گیا۔ اقلیتوں کے لئے سالانہ بجٹ میں مختص کردہ فنڈ میں تخفیف کردی گئی۔
واستو کے نام پر سکریٹریٹ کی 2 مساجد کو شہید کیا گیا۔ غرض کہ ہر شعبہ میں اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ آج کے ٹی آر اقتدار سے محرومی کے بعد مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اقلیتوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
کانگریس حکومت نے انہیں 85 فیصد آبادی والے طبقات ایس سی، ایس ٹی، بی سی اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے محکمہ جات کا مشیر بنایا ہے جہاں تک ریاستی کابینہ میں اقلیتی نمائندگی کا سوال ہے وقت آنے پر مناسب نمائندگی دی جائیں گی۔ محمد علی شبیر آج یہاں گاندھی بھون میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔