[]
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ این چندرابابو نائیڈو کی جانب سے ہنر مندی کے فروغ کے مراکز کے قیام میں 3300 کروڑ روپے کے مبینہ گھپلے میں درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست پر منگل کو منقسم فیصلہ سنایا۔
جسٹس انیرودھ بوس اور بیلا ایم ترویدی کی بنچ نے حکم دیا کہ کیس کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا جائے تاکہ 2018 کے انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 17اے کے اطلاق کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے ایک بڑی بنچ کی تشکیل کی جائے۔
مسٹر نائیڈو کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل سدھارتھ لوتھرا نے استدلال کیا تھا کہ 1988 کے انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 17-اے کے26 جولائی 2018 کو ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت لازمی منظوری کے بغیر ان کے کیس میں تحقیقات شروع کرنا اور مقدمہ درج کرنا نامناسب ہے۔
جسٹس بوس نے حکم سناتے ہوئے کہا کہ اگر سیکشن 17 اے کے تحت مجاز اتھارٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کوئی انکوائری اور تحقیقات شروع کی جاتی ہے تو اسے غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مسٹر نائیڈو کے معاملے میں ان کا حکم لیڈر کے خلاف منظوری حاصل کرنے کا موقع ختم نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ حراست کے حکم اور گرفتاری کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جسٹس ترویدی نے اپنی طرف سے کہا کہ ترمیمی ایکٹ 2018 کا استعمال نئے التزامات کو نافذ کرنے کے لئے نوٹیفائڈ 26 جولائی 2018 کی تاریخ سے پہلے کے جرائم کے لیے حکام کی لازمی منظوری حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ ترمیمی ایکٹ 2018 کو ممکنہ طور پر نافذ کیاجائے گا، نوٹیفکیشن کی تاریخ سے پہلے ہونے والے جرائم پر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ التزامات کا استعمال بے ایمان سرکاری ملازمین کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں کیا جا سکتا اور یہ اس تاریخ سے پہلے کیے گئے جرائم کے لیے کارروائی کو منسوخ کرنے کی بنیاد نہیں ہو گی۔
سابق وزیر اعلیٰ نے ریاست میں اسکل ڈیولپمنٹ مراکز کے قیام سے متعلق فوجداری تحقیقاتی محکمہ (سی آئی ڈی) کے ذریعہ درج 2021 مقدمہ کے معاملے میں 8 ستمبر 2022 کو اپنی گرفتاری کو چیلنج کیا تھا۔
ہائی کورٹ نے 22 ستمبر 2022 کو کیس میں 9 دسمبر 2021 کو مقدمہ درج کرنے اور ان کی عدالتی تحویل کے حکم کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مسٹر نائیڈو کو تاہم گزشتہ سال نومبر میں باقاعدہ ضمانت دے دی گئی تھی۔