[]
سپریم کورٹ نے جمعرات کو یوپی حکومت کی نمائندگی کر رہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) سے پوچھا کہ آیا ان کا بیان ’گھروں پر بلڈوزر چلانا غلط ہے‘ عدالت کے ذریعے درج کیا جا سکتا ہے؟
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو یوپی حکومت کی نمائندگی کر رہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) سے پوچھا کہ آیا ان کا بیان ’گھروں پر بلڈوزر چلانا غلط ہے‘ عدالت کے ذریعے درج کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس ایس کے کول اور سودھانشو دھولیا کی بنچ نے یہ تبصرہ اس وقت کیا جب یوپی حکومت کے وکیل بلڈوزر چلانے کے ایک ملزم کی درخواست ضمانت کی مخالفت میں دلائل پیش کر رہے تھے۔
بنچ نے اے اے جی ریندر رائے زادہ سے پوچھا کہ، تو کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ مکانوں پر بلڈوسر چلانا غلط ہے؟ تو پھر آپ بلا شبہ گھروں پر بلڈوزر چلانے کے نظریہ پر عمل نہیں کریں گے؟ کیا ہمیں آپ کا یہ بیان درج کر لینا چاہئے کہ گھروں پر بلڈوزر چلانا غلط ہے۔
جواب میں اے اے جی نے کہا کہ ان کی دلیل اس معاملہ (ضمانت دینے کے سواب سے متعلق) تک ہی محدود ہے۔ میں اس سے آگے نہیں جاؤں گا۔ موجودہ معاملہ میں درخواست گزار کو ٹرائل کورٹ نے ضمانت دے دی تھی لیکن ملزم کے جرائم کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے ریاست حکومت کی اپیل پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔