اسرائیل پوری طرح ایکسپوز ہوا ہے/ پاکستان میں فری اینڈ فیئر الیکشن وقت کی ضرورت

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: حجۃ الاسلام والمسلمین راجہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق ہے۔ قم المقدس ایران سے علم دین حاصل کرنیکے بعد پاکستان تشریف لائے اور دین کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ اتحاد امت کے داعی ہیں۔ تکفیریت کیخلاف بھی جدوجہد کی۔

غزہ میں جاری جارحیت اور موجودہ پاکستانی سیاسی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے مہر نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو کی ہے جو درج ذیل ہے۔

پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابات کے بارے میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں، کیا انتخابات ہوں گے؟

جنہوں نے رژیم چینج کیا انہوں نے غلط اندازے لگائے اور ایک غلط قدم اٹھایا اور اپنے ہی جال میں خود پھنس گئے ہیں۔ دیکھیں وہ سمجھ رہے تھے کہ اس حکومت کو عوام میں کوئی مقبولیت نہیں ہے۔ یہ غلط اندازہ تھا۔ عوام اسی سے نوے فیصد اس طرف ہیں۔ اگر صاف اور شفاف الیکشن کرائیں تو بھی مصیبت، نہ کرائیں تو بھی مصیبت۔ اگر شفاف انتخابات ہوئے تو دوبارہ اسی جگہ چلے جائیں گے جہاں سے رژیم چینج کیا تھا۔ اور امریکیوں، اسرائیلیوں اور بھارتیوں کا پورا ایپی سوڈ ناکام اور زیرو ہوگا۔ اب وہ پارٹی کا انتخابی نشان لے لیا ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا ہے کسی پارٹی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ہے۔ یہ ریاستی جبر ہے لوگ اس کے خلاف ہیں اور برداشت نہیں کررہے ہیں۔ ایک نواز شریف کی خاطر پورے ملک کو داو پر لگایا گیا ہے۔ سارے کیسز اور سزاوں کو ختم کیا گیا ہے۔ نواز شریف کی خاطر پورے پاکستان کی عوام سے لڑرہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جیلوں میں ہیں۔ اقتدار کی خاطر پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں لہذا الیکشن کرانے اور نہ کرانے دونوں صورتوں میں ان کا نقصان ہے۔ البتہ فری اینڈ فیئر الیکشن وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندر امریکیوں، اسرائیلیوں اور بھارتیوں کا نفوذ اتنا بڑھ گیا ہے کہ پاکستان کی خودمختاری خطرے میں ہے لہذا یہ الیکشن بہت خطرناک نتائج بھی دے سکتے ہیں۔ ملک کے اندر امن و امان اور معاشی صورتحال سے لوگ نالاں ہیں۔ فلسطینی بچوں کے قاتل نتن یاہو اور کشمیریوں کے قاتل مودی کا نام لے سکتے ہیں لیکن عمران خان کا نام نہیں لے سکتے ہیں۔ یہ پاکستان کی صورتحال ہے۔ الیکشن کے ذریعے بھی تبدیلی نہیں لاسکتے ہیں۔

نگران وزیراعظم نے پچھلے دنوں اسرائیل کے بارے میں بیان دیا تھا کہ قائداعظم کا بیان وحی نہیں ہے، پاکستان کی پالیسی تبدیل بھی ہوسکتی ہے، اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟

میں نے کہا تھا کہ رژیم چینج کے پیچھے اسرائیل تھا۔ عمران نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ ان (کاکڑ) کو اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے لئے لایا گیا ہے۔ لیکن پاکستان کے عوام نہیں مانتے ہیں۔ آج یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ میرا مقصد یہ نہیں تھا۔ قائداعظم نے ناجائز ریاست کیوں کہا تھا؟ کیونکہ یہ غیر قانونی اور لوگوں کو قتل کرکے ظلم و ستم کرکے قبضہ اور غصب کیا گیا ہے۔ اب اگر ان کو مان لیتے ہیں تو پھر کشمیر کے بارے میں بھی یہی کہیں گے۔ یہ لوگ پاکستان کے عوام کی نظروں میں گرچکے ہیں۔ نہ یہ عوام میں جاسکتے ہیں اور نہ جن کو وہ لانا چاہتے ہیں وہ جاسکتا ہے لہذا پاکستان کے عوام اسرائیل کو نہیں مانتے ہیں۔ یقین کریں جو بھی یہ قدم اٹھائے گا عوام اس کو نہیں چھوڑیں گے۔ میرے خیال میں دنیا کے جن ممالک میں سب سے زیادہ غزہ کے بارے میں مظاہرے ہورہے ہیں ان میں سے ایک پاکستان ہے۔ آج بھی کراچی میں مظاہرہ ہے۔ پاکستان کے عوام فلسطین اور قبلہ اول کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں۔

طوفان الاقصی کے بعد اسرائیل کو فلسطینی مجاہدین کے مقابلے میں جو رسوائی ہورہی ہے اس کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

چنانچہ رہبر معظم نے کہا ہے کہ طوفان الاقصی نے اسرائیل پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں کاروائی کرکے پوری دنیا میں اپنا امیج مزید خراب کردیا ہے۔ دنیا کی نگاہوں میں وہ گرچکا ہے۔ اسرائیل پہلے خود کو ایک جمہوری، ترقی یافتہ، ہر لحاظ سے مضبوط اور دفاعی طاقت کے طور پر پیش کرتا تھا یہ ساری چیزیں ختم ہوگئی ہیں۔ اب اسرائیل پوری طرح کھوکھلا ہوچکا ہے۔ نہ آئرن ڈوم روک سکتا ہے اور نہ دفاعی سسٹم کارامد ہے۔ رہبر معظم نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اسرائیل کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ وہ روز بروز کمزور ہورہا ہے۔ مظاہرے ہورہے ہیں۔ اسرائیل کی حکمت عملی یہ ہے کہ جنگ میں جلد فیصلہ کن حملہ کرکے کام تمام کرو کیونکہ اس کی کوئی گہرائی نہیں ہے۔ اس کی چوڑائی مختصر ہے۔ میرے خیال میں 1956 میں اسرائیل نے 9 دن میں جنگ جیتی 1967 کی جنگ 6 دن میں اور 1973 کی جنگ 19 دن میں جیتی۔ آج 80 سے زیادہ دن ہوگئے ہیں لیکن اسرائیل کی حکمت عملی شکست کھاچکی ہے اور خود کہتے ہیں کہ یہ ہمارے وجود کی بقا کی جنگ ہے۔ اگر ہم ہار گئے تو ہمارا وجود ختم ہوجائے گا۔ اب تک کچھ بھی نہیں کرپارہے ہیں۔

حماس اور مقاومت کو ختم کرنے اور یرغمالیوں کو چھڑانے میں ناکام ہے۔ مقاومت نے اس کو گھیرا ہوا ہے۔

کیا اسرائیل حماس کی شرائط پر جنگ بندی کے لئے تیار ہوگا؟

اس کے پاس چارہ ہی نہیں ہے اس کا وجود اتنا کھوکھلا ہوچکا ہے کہ اس کی عمارت ہی منہدم ہوجائے گی۔

فلسطین کے لئے امت مسلمہ اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی حمایت کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

اسرائیل اور امریکہ کا بیانیہ شکست کھاگیا ہے۔ لوگ لاکھوں کی تعداد میں باہر نکل کر مظاہرہ کررہے ہیں۔ اسرائیل کا امیج سیاہ ہوگیا ہے جو کبھی ٹھیک نہی ہوسکتا۔ آج دنیا بہت تیز ہوچکی ہے۔ منٹ منٹ کی خبر لوگوں کو پہنچ رہی ہے۔ میڈیا پر قبضہ ہونے کے باوجود دنیا بدل گئی ہے۔ اسرائیل لوگوں کی نظروں سے گرچکا ہے حتی چھوٹے بچوں کی نظروں سے بھی گرچکا ہے۔ ایک پانچ سال کا بچہ مجھ سے کہنے لگا کہ دادا ابو میں نے فلسطین کے بچوں کی تصویریں دیکھیں اور میں بہت رویا ہوں۔ یہ بچے سالوں تک ان مناظر کو نہیں بھولیں گے۔ اسرائیل نے اپنے پاوں پر خود کلہاڑا ماردیا ہے۔ وہ جنگ نہیں کرسکتا ہے اسی لئے جنگی جرائم کرتا ہے۔ اس کے لوگ نہیں لڑسکتے ہیں۔ ٹینکوں اور گاڑیوں میں جاتے ہیں اگر ہمت ہے تو زمین پر اتریں۔ امریکہ اور یورپ کی مدد اور پوری دنیا کا اسلحہ ہونے کے باوجود غزہ کے مختصر علاقے پر کچھ نہیں کرسکا۔ اسرائیل پوری طرح ایکسپوز ہوا ہے۔ یہ بہت بڑی شکست ہے۔ کورونا کے بعد طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف بدل گیا ہے کیونکہ مغرب کورونا کو صحیح طرح ہینڈل نہیں کرسکا۔ یوکرائن جنگ شروع ہونے کے بعد کہا گیا کہ طاقت کا توازن بدلنے کا سسٹم مزید تیز ہوا۔ غزہ کے معاملے میں امریکہ تنہا ہوگیا ہے۔ ایک اتحاد نہیں بناپارہا ہے۔ ایک زمانے سے سو سے زائد ملکوں کا اتحاد بناتا تھا ابھی دیکھیں امریکہ کتنا تنہا ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ میں نوے فیصد سے زیادہ ممالک غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ امریکہ اکیلا ہے۔ یمنیوں کے خلاف الائنس بنانے کی کوشش کی لیکن کیا حال ہوگیا۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ بھی ڈوب رہا ہے۔ مستقبل مقاومت کا ہے اور دنیا پر جو مشرق حکومت کرے گا اور اس میں مقاومت کا اہم کردار ہوگا۔ سیاسی جغرافیا مقاومت کے پاس ہے اس لئے بڑا بہت تحول آیا ہے جس کو ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ جب کسی جنگ میں اسٹریٹیجک شکست ہوجائے تو سب کچھ ہار جاتا ہے۔ اسرائیل کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ جتنا عرصہ رہے گا اتنا ہی مار کھائے گا۔ گولان بریگیڈز کے اہلکار غزہ سے نکلنے کے بعد خوشی سے اچھل رہے تھے۔ اگلا مرحلہ مقاومت کی مرضی کے مطابق ہوگا اسی لئے سعودی عرب اور مصر کے ساتھ اچھے تعلقات بنائے جارہے ہیں۔ ایران کے وزیرخارجہ نے ان ممالک کے بہت سفر کئے ہیں۔ خطہ مقاومت کا ہوگا۔
 

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *