[]
پروفیسر اخترالواسع
سپریم کورٹ آف انڈیا نے بلقیس بانو کیس میں اپنا فیصلہ سنا کر جس طرح سے عدلیہ کے وقار کو بلند کیا ہے، اس کا اعتبار مستحکم کیا ہے وہ اس بات کو درشاتا ہے کہ بہرحال انصاف ملنے میں دیر ہو سکتی ہے، اندھیر نہیں۔ حکومت گجرات نے جس تیزی، فراخ دلی اور عدالتی احکامات کو توڑ مروڑ کر بلقیس بانو اور اس کے خاندان کے افرادِ خانہ کے قتل عام اور اجتماعی زنا بالجبر کا نشانہ بنانے والوں کو اچانک رِہا کرکے جس طرح یہ جگ ظاہر کیا تھا کہ اس کی نظر میں انصاف اس فیصلے کا نام ہے جو ظالموں کے حق میں کیا جائے اور یہ سب کچھ آزادی کے امرت مہوتسو اور عین جشن آزادی 15اگست کو کیا گیا اور صرف خاطیوں کو رہا ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان کو جیل میں نیک چال چلنی اور ذات پات کی بنیاد پر نیک نامی کا سرٹفکیٹ دیتے ہوئے ان کو وہ سادر ستکار ہوا جیسے انہوں نے گینگ ریپ نہ کیا ہو، معصوم اور بے قصوروں کا قتل عام نہ کیا ہو بلکہ کوئی نیک کام کیا ہو۔
لیکن جیسا کہ سنتے آئے ہیں ’’خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘‘، وہی ایک دفعہ سچ ثابت ہوا۔ خدا بھلا کرے سہاسنی علی، روپ ریکھا ورما، مہوا موئترا اور ریوتی لال جیسی تین بہادر خواتین کا، جنہوں نے اس معاملے میں انتہائی جرأت اور ہمت سے کام لیتے ہوئے پی آئی ایل داخل کی اور سابق ایم پی اور سی پی آئی مارکسسٹ لیڈر سہاسنی علی کا کہنا ہے کہ ’’ہم سب نے دیکھا کہ ایک طرف وزیر اعظم لال قلعے سے تقریر کر رہے تھے اور دوسری طرف ان مجرموں کی رہائی کا ہاروں کے ساتھ استقبال کیا جا رہا تھا۔‘‘ ان کے بقول ـ اس واقعے کے بعد بلقیس نے ایک انٹرویو میں پوچھا تھا کہ ’’کیا یہی انصاف کی انتہا ہے‘‘ اور اسی کے بعد سہاسنی علی کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا خیال آیا۔اس لڑائی میں ان کے ساتھ کپل سبّل، اپرنا بھٹ، اندرا جے سنگھ اور ورندا گرور شامل تھیں۔ سپریم کورٹ میں جو اجتماعی عرضی دائر کی گئی وہ سہاسنی علی، ریوتی لال، مہوا موئترا اور پروفیسر روپ ریکھا ورما کے ساتھ تھی۔ یہ بات کم اہمیت کی حامل نہیں کہ پروفیسر روپ ریکھا ورما اور ریوتی لال بلقیس بانوں سے کبھی نہیں ملی تھیں اور وہ اس سے مل کر اس کے زخموں کو کریدنا بھی نہیں چاہتی تھیں۔
گجرات سرکار نے جو عذر لنگ پیش کئے اس سلسلے میں وہ تو اپنی جگہ مضحکہ خیز تھے ہی لیکن ساتھ میں عدالت عظمی کو جس طرح سے گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی وہ خود بے حد شرمناک ہے جس کا عدالت عظمی کے دونوں معزز ججوں نے اپنے فیصلے میں ذکرکیا ہے۔ ہم اس سے انکار نہیں کرتے کہ عام حالات میں آپ خاطیوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر سکتے ہیں، عمر قید کی انتہا گزارنے کے بعد ان کو چھوڑ بھی سکتے ہیں لیکن یہ ان کے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے جنہوں نے ایک خاندان کے سات لوگوں کو، جن میں بچے اور بزرگ شامل تھے ان کو انتہائی وحشت کے عالم میں تہہ تیغ کر دیا ہو۔ جنہوں نے 21سال کی پانچ مہینے کی حاملہ خاتون، اس کی ماں اور دوسری خواتین کے ساتھ اجتماعی زنا بالجبر کا بے دردی اور بے شرمی سے ارتکاب کیا ہو، جس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں بھی ڈھلائی کا مظاہرہ ہو اور بعد ازاں سپریم کورٹ ہی کے حکم سے سی بی آئی کورٹ میں کسی طرح مقدمہ درج کیا گیا ہو اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ ریاست گجرات جہاں یہ گھناؤنے جرائم کا ارتکاب ہوا تھا وہاں سے برابر کی ریاست مہاراشٹرا میں مقدمے چلانے کے لیے حکم دیا گیا۔ جہاں سے سی بی آئی کورٹ نے 11لوگوں کو عمر قید کی سزائیں دیں اور ان کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی بحال رکھا۔ یہ بھی کم شرم کی بات نہیں تھی کہ ایک معصوم، بے خطا نوجوان حاملہ خاتون جس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بچّی اور خاندان والوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور گجرات سرکار نے جس کی عصمت اور اس پر ہونے والے ظلم و جبر کے کفارے کے طور پر پانچ لاکھ قیمت لگائی۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے کہا کہ اس کے پچاس لاکھ روپئے، سرکاری نوکری اور رہائش کے انتظامات کئے جائیں۔
ابھی یہ سب ہوتا ہی کہ حکومت گجرات نے بغیر کسی بہتر، مؤثر اور مناسب قانونی عمل سے گزرتے ہوئے 11سزا یافتہ لوگوں کو نہ صرف رِہا کر دیا بلکہ ہار پھول سے ان کا استقبال بھی ہوا اور حکمراں بی جے پی کے دو ایم ایل اے نے ان کے استقبال اور اکرام میں کوئی کمی نہ رہنے دی اور ایک نے ان کی بڑی ذات سے وابستگی کی دہائی دی تو دوسرے نے انہیں سنسکاری قرار دیا۔
جب یہ سب واقعات ظہور پذیر ہو رہے تھے تو اس وقت ہندوستانی سماج میں ایک غم و غصے کا لاوا پک رہا تھا اور جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، سہاسنی علی، ریوتی لال ، مہوا موئترااور پروفیسر روپ ریکھا ورما نے اس کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا لیکن وائے بے شرمی کہ اس وقت بھی بعض حلقوں سے یہ آواز اٹھی کہ یہ معاملہ ان تینوں سے براہ راست واسطہ نہیں رکھتا ہے اس لئے ان کو اس میں فریق نہیں بننے دینا چاہیے۔ ایسے وقت میں ان لوگوں نے تو ہمت نہیں ہاری لیکن اتنا ضرور ہوا کہ بلقیس بانو ہمت کرکے آگے آئی اور اس نے اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والے شرمناک جرم، تکلیف دہ سلوک، بربریت اور بہیمیت بھرے مجرمانہ برتاؤ کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
جیسا کہ عدالت عظمی کے دونوں معزز ججوں نے اپنے مشترکہ اور متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ اس سے پہلے عدالت کو دھوکے میں رکھ کر اور اس سے بعض حقائق کو چھپا کر فیصلے لئے گئے جو کہ سراسر غلط ہے۔ عدالت عظمی کے ججوں نے یہ بھی کہا کہ رہائی کا فیصلہ کرنے کا اختیار گجرات کی حکومت کو تھا ہی نہیں بلکہ جہاں مقدمہ چلا تھا اور جہاں سے اصل میں سزائیں ہوئیں تھیں یہ انہیں کے اختیارِ کار میں تھا۔
اس معاملے میں یہ بات بھی عدالت عظمی نے ریاست گجرات کے حوالے سے بتائی ہے کہ اس فیصلے کی منظوری مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ نے دی تھی تو اب وزارت داخلہ کو یہ بتانا چاہیے کہ اس نے کس بنیاد پر یہ فیصلہ کیا تھا؟ دوسرے وزیر اعظم جو سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف مرکزی وزیر داخلہ کی طرح جو خود بھی گجرات کے رہنے والے ہیں اور اصل جرم ان کے برسرِ اقتدار رہتے ہوئے گجرات میں ہوا تھا وہ اب تک اس پر کیوں خاموش ہیں؟
بہرحال جس کا جو بھی رویہ اور ردعمل ہو، ہمیں اس بات کے کہنے میں کوئی تکلف نہیں ہے کہ عدالت عظمی کے دو رکنی بینچ کے اس فیصلے نے ہندوستانی عدلیہ، دستور اور سول سوسائٹی کی جرأت و ہمت پر اعتماد اور اعتبار قائم کیا ہے۔ ایک بات اور، وہ یہ کہ بلقیس بانو کی جرأت و ہمت کو جتنا بھی سلام کیا جائے اور داد دی جائے، کم ہے، کہ اس نے ہمت نہیں ہاری۔ ہندوستان کے نظام عدل سے مایوس نہیں ہوئی اور انصاف کے لیے برابر جنگ کرتی رہی۔ چاہے انصاف ملنے میں 22سال ہی کیوں نہ لگے ہوں اور صرف بلقیس بانو ہی نہیں بلکہ اس کے شوہر اور اہل خاندان بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بلقیس بانو کا ہر دم ہر طریقے سے ساتھ دیا۔ ساتھ ہی ہم سلام کرتے ہیں سہاسنی علی، ریوتی لال، مہوا موئترا، پروفیسر روپ ریکھا ورما، ورندا گروور اور اندرا جے سنگھ جیسی بہادر خواتین کو، جنہوں نے یہ بتا دیا کہ ہندوستان میں زیادہ دیر تک ظلم و ستم کا کاروبار نہیں چلایا جا سکتا اور کسی خاتون، اس کے بے قصور، مجبور، مقہور اور بے بس خاندان والوں کو ظلم و تعدی کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ساتھ ہی قابل تحسین ہے وہ نظام عدلیہ جو حق و انصاف کی سربلندی کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی ہے اور ظلم کو ظلم کہنے میں کوئی جسے ذرا سا بھی تکلف نہیں ہوتا ہے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
۰۰۰٭٭٭۰۰۰