[]
سوال:- مسئلہ کی تحقیق کے لئے آپ کو زحمت دے رہاہوں، امید کہ مفصل ومدلل نیز شوافع اور احناف کا اختلاف ہوتو اس کی وضاحت کے ساتھ جواب مرحمت فرماکر عند اللہ ماجورہوں گے ،
زید کا اپنا ہوٹل ہے ، عمرکو نوکری پراس شرط کے ساتھ رکھا کہ ماہانہ تنخواہ کے ساتھ %2 (دوفیصد ) کمیشن دیاجائے گا ،
سوال یہ ہے کہ (۱) عمر کو تنخواہ کے ساتھ کمیشن لیناصحیح ہے ؟ (۲) اس سلسلہ میں شوافع اور احناف میں کوئی اختلاف تونہیں ہے ؟
(۳) شوافع میں جواب مثبت ہویا منفی ، تو اس کی علت ، سبب یادلیل کیاہے ؟
واضح ہوکہ زید ہوٹل کا خود مالک ہے ، اور عمر کا زید کے ہوٹل کے تعلق سے تجارت ،یامالی طورپر کچھ بھی تعاون نہیں ہے اور اب نوکری کے لئے عمر کو بلایاہے …
مذکورہ بالامسئلہ کا جواب واضح عنایت فرمائیں؛تاکہ زندگی میں حلال وحرام کی تمیزباقی رہے اورعلماء سے تعلقات قائم رہیں (عبدالقدوس، حکیم پیٹ )
جواب:- اجرت کا معلوم ومتعین ہونا ضروری ہے ، کمیشن کی صورت میں اجرت کی قطعی مقدار متعین نہیں ہوتی ہے ؛اس لئے عام طور پر فقہاء نے اس صورت میں مقررہ فیصد کے بجائے مروجہ اجرت واجب قرار دیاہے :
وفي الدلائل ، السمسار یجب أجرۃ المثل وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر کذا، فہوحرام علیہم (ردالمحتار:۹؍۸۷)فقہاء شوافع کی بھی یہی رائے معلو م ہوتی ہے: فلوقال : اعمل کذ الأرضیک أو أعطیک شیئاً وما أشبہہ ، فسد العقد وإذاعمل استحق أجرۃ المثل (روضۃ الطالبین:۵؍۱۶۷)
فقہاء نے اس صورت کو اس لئے منع کیاہے کہ یہ ابہا م بعض اوقات فریقین کے درمیان نزاع کا باعث بن سکتاہے؛ لیکن چونکہ آج کل اسطرح کا تعامل ہوگیاہے ، اور اس تعامل کی وجہ سے یہ عام طور پر باعث نزاع نہیں بنتاہے ، اس لئے فقہاء متاخرین نے اس کی اجازت دی ہے:
وفي الحاوی سئل محمد بن مسلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو لابأس بہ وإن کان في الأصل فاسدًا ، لکثرۃ التعامل وکثیراً من ہذاغیر جائز ، فجوزہ لحاجۃ الناس کدخول الحمام (ردالمحتار:۹؍۸۷)
اس لئے جوصورت آپ نے لکھی ہے کہ ماہانہ تنخواہ بھی مقررہو اور فروخت پردوفیصد کمیشن بھی ، یہ صورت جائز ہے ، سمجھاجائے گا کہ اجرت کے ایک حصہ میں قطعی مقدار متعین کردی گئی ہے ،اور ایک حصہ میں بہ طور انعام تناسب مقرر کیاگیا ہے ،
واللہ اعلم ؛ تاہم فقہ شافعی کے بارے میں مجھے زیادہ تحقیق نہیں ہے ، بہترہوگا کہ کسی شافعی عالم سے بھی رجوع کرلیاجائے ۔