[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی فلسطین کمیٹی کے تہران میں منعقدہ ہنگامی اجلاس کے اختتام پر ایک بیان جاری کیا گیا۔
بیان کا متن حسب ذیل ہے:
ہم، فلسطین کی مستقل کمیٹی کے پانچویں غیر معمولی اجلاس کے شرکاء 10 جنوری 2024 کو اسلامی جمہوریہ ایران کے دارلحکومت تہران میں جمع ہوئے اور فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت پر تبادلہ خیال کیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں بشمول بچوں اور خواتین کی شہادتیں ہوئیں اور غزہ اور اس کے تمام اہم انفراسٹرکچر کی وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بنی۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ صیہونی حکومت نے ان جنگی جرائم اور وحشیانہ حملوں کا ارتکاب کرتے ہوئے جان بوجھ کر غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے عوام کو انسانی امداد پہنچانے کے لیے فوری جنگ بندی اور راہداری کھولنے کی مخالفت کی ہے۔
نیز ہم عالمی برادری کے ساتھ مل کر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ صیہونی حکومت کے مذموم اقدامات کے شعلے مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں سے باہر تک پھیل جائیں گے اور فلسطین کی موجودہ مخدوش صورتحال کو دیکھتے ہوئے پورا خطہ شدید مشکلات کا شکار ہے جو کہ عالمی امن و سلامتی کو خطرناک نتائج سے دوچار کر سکتا ہے۔
غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جاری غیر انسانی جرائم کی تحقیقات کرتے ہوئے اور فلسطین کمیٹی کے قانون اور او آئی سی کے چارٹر کی بنیاد پر، نیز فلسطین کمیٹی کی مختلف کانفرنسوں سے منظور شدہ قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین اور او آئی سی کے رکن ممالک کے سربراہان کی کانفرنسوں کی تمام قراردادوں پر اس کے ارکان اور اعضاء کے طور پر ہم یہاں اعلان کرتے ہیں:
1- اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مسئلہ فلسطین اس وقت تک امت اسلامیہ کا اہم مسئلہ ہے جب تک کہ فلسطینی عوام اپنا ایک آزاد ملک نہیں بنا لیتے جس کا دارالحکومت قدس ہو اور بیت المقدس اور مسجد الاقصی تمام مسلمانوں کے لیے ریڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور فلسطینی ریاست کا ابدی دارالخلافہ ہے، وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔ہم یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی اقوام غزہ میں تین ماہ قبل ہونے والے قتل عام کے نتیجے میں موجودہ ہولناک مناظر کو برداشت نہیں کر سکتیں۔ ہم انتباہ بھی کرتے ہیں کہ اس صورتحال کا تسلسل عالم اسلام میں ایک بے مثال اضطراب پیدا کرے گا۔
2 خاص طور پر غزہ، مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اور تمام فلسطینی سرزمین میں تنازعات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت کی تمام فوجی کارروائیوں کے خاتمے اور صیہونی افواج کے انخلاء کے ساتھ جنگی جارحیت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
3- ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ کے شہریوں کی اس دردناک آفت میں مدد کرنا ایک مذہبی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ ہم او آئی سی کے رکن ممالک کی حکومتوں اور عام لوگوں سے غزہ میں فلسطینی عوام کے استحکام اور مزاحمت کی مادی، اخلاقی، سفارتی اور سیاسی طور پر حمایت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے شہریوں تک انسانی امداد، خاص طور پر ادویات، خوراک، پانی، ایندھن، خیمے، گھریلو اشیاء اور موسم سرما کا لباس پہنچانے کے لیے اپنی کوششوں کو مربوط کریں۔ ہم فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین کی تعمیر نو کے لیے ضروری مالی امداد فراہم کرنا چاہتے ہیں جنہیں صیہونی حکومت کی جنگی مشین نے غزہ کی پٹی میں تباہ کر دیا ہے، نیز فلسطینیوں کی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کے لیے منصوبوں اور سرمایہ کاری کے لیے معاونت فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
ہم مغربی کنارے میں صہیونی بستیوں کی تعمیر اور نئے منصوبوں کو روکنے اور غیر قانونی بستیوں کے طور پر موجودہ ناجائز بستیوں کو ختم کرنے کے لئے بھی اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔
4- ہم تصدیق کرتے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں صہیونی سیاست دانوں اور فوجیوں کی طرف سے جنگی جارحیت، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم جن میں فوجی، زمینی اور فضائی حملے، گھروں اور عبادت گاہوں کی تباہی، عوامی خدمت کے مراکز، اسکول، ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگوں کا قتل اور گرفتاریاں بین الاقوامی انسانی قانون اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی جان بوجھ کر خلاف ورزی ہے جس پر غور کے لیے متعلقہ بین الاقوامی عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔
5- ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ صیہونی حکومت کی جنگی جارحیت، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو بین الاقوامی کے حوالے کیا جائے اور ہم انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں سے صیہونی حکومت کے عدالتی مواخذے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون بالخصوص بین الاقوامی فوجداری عدالت، صیہونی حکومت کو غزہ کے انفراسٹرکچر، کھیت کھلیان اور درختوں کی تباہی پر متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے پر مجبور کرے اور ہم او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کو ہدایات دیتے ہیں کہ وہ تنظیم کے رکن ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ اپنے قانونی ماہرین کو اسرائیلی حکومت کے جرائم کے بارے میں دستاویزات تیار کرنے کے لئے بھیجیں تاکہ اس رجیم کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکے۔
6- ہم نسل کشی کی روک تھام کے معاہدے کی خلاف ورزی پر اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کرنے پر دوست ملک جنوبی افریقہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کیونکہ اسرائیل کی کارروائی نسل کشی اور نسلی تطہیر ہے جس کے نتیجے میں یہ کارروائیاں غزہ کے تمام شہریوں کو بلا استثناء نشانہ بناتی ہیں۔ ان جرائم کو اسرائیل کے ثابت شدہ جنگی جرائم میں شامل کیا جانا چاہیے۔ روزانہ ہونے والے قتل عام میں، ان کے شہریوں پر پورے محلوں کی تباہی، پانی، خوراک اور ادویات سے محرومی کے ساتھ ساتھ جبری نقل مکانی، اسپتالوں اور عبادت گاہوں، اسکولوں اور اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنانا، اسرائیل میں برسر اقتدار دہشت گرد گروہوں کے لیڈروں کے بیانات اور اقدامات جیسے تمام جرائم جان بوجھ کر روا رکھے گئے ہیں۔
7- صیہونی حکومت کی جارحیت میں امریکہ کی شرکت؛ یا تو صہیونی دشمن کو امریکی جنگی مشین کے تیار کردہ جدید ترین فوجی ہتھیار فراہم کرنے میں براہ راست شرکت کے ذریعے، یا اس کی حمایت اور بین الاقوامی فورمز پر اس کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ ویٹو کے حق کو استعمال کرتے ہوئے جارحیت کو جواز فراہم کرنے کے امریکی اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔
8- ہم صیہونی جرائم پیشہ قوتوں کی طرف سے غزہ کی پٹی یا مغربی کنارے سے فلسطینی عوام کی جبری نقل مکانی کے آپریشن کو یکسر مسترد کرتے ہیں، کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے کنونشنز اور چارٹر کی سنگین اور صریح خلاف ورزی ہے۔ ہم اس آپریشن کے خاتمے اور تمام فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 کے مطابق یہ فلسطینیوں کا تاریخی اور جائز حق ہے۔
9- ہم صیہونی غاصب حکومت کے خلاف فلسطینی عوام کی ہر طرح کی مزاحمت کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ چونکہ ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا مقبوضہ سرزمین کے باسیوں اور تمام اقوام کا جائز حق ہے، ہم دنیا بھر کی حکومتوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ کی پٹی میں نہتے شہریوں کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کے حوالے سے ذمہ داری سے کام لیں اور انصاف اور شفافیت کے ساتھ فیصلہ کریں۔
چونکہ یہ رجیم لوگوں کے قتل عام اور بے گھر ہونے کا بنیادی سبب ہے اور نہتے فلسطینی عوام اس کی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں۔ ہم فلسطین کمیٹی کے تمام پارلیمانی اقدامات کی ہر سطح پر حمایت کرتے ہیں اور بین الاقوامی علاقائی فورمز سے غزہ اور مغربی کنارے کے شہداء اور صہیونی آپریشن میں جارح قوتوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے میڈیا کے ارکان کے ساتھ ساتھ لبنانی مزاحمت اور دیگر علاقوں کے شہداء کی ارواح کو سلام پیش کرتے ہیں اور ہم فلسطینی عوام کی غزہ میں مزاحمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
11- او آئی سی کے رکن ممالک سے کہا جاتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی مدد اور قابض رجیم کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی پارلیمنٹ میں ضروری قوانین پاس کریں۔
12- ہم مغربی کنارے اور بیت المقدس کے باشندوں کے خلاف صیہونی آباد کاروں اور قابض رجیم کی افواج کے اشتعال انگیز اور پرتشدد اقدامات کے تسلسل کی شدید مذمت کرتے ہیں جو کہ نسل پرستی کی ایک بدترین شکل ہونے کے ساتھ فلسطینی سرزمین کو غصب کرنے کا گھناونا اقدام ہے۔ ہم مسجد اقصیٰ کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کے مقصد سے بیت المقدس میں اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات پر مسلسل تجاوزات کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں اور فلسطینیوں کے خلاف تمام غاصبانہ کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
13- او آئی سی کے موجودہ چیئرمین جناب ابراہیم بوغالی کو تنظیم کی صدارت دوران ثابت قدمی کے ساتھ فلسطینی عوام اور مزاحمت کی حمایت میں انتھک کوشش کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور رکن ممالک کے نمائندوں سے جوکہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کے خواہاں ہیں، سفارش کرتے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کا ساتھ دیں تاکہ وہ اپنی غصب شدہ زمین واپس لے سکیں اور ایک آزاد اور خودمختار حکومت کہ جس کا دارالحکومت قدس ہو، قائم کر سکیں۔
ہم نے صیہونی حکومت کے حملوں کے آغاز سے ہی محترم بوغالی کی کوششوں اور اقدامات کو سراہا ہے اور ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مقبوضہ فلسطین میں اس غیر مساوی جنگ کے خاتمے تک اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
14- مسئلہ فلسطین کی حمایت اور اس میں شرکت کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے کی جانے والی انتھک کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اس اہم اجلاس کی میزبانی کے لئے اسلامی جموریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر عزت مآب ڈاکٹر محمد باقر قالیباف کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں اور فلسطین کے مزاحمتی عوام کے لیے فتح اور سربلندی کی آرزو رکھتے ہیں۔