[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ غزہ کے خلاف جنگ کے تیسرے مرحلے کے آغاز کے بارے میں بات کررہے ہیں جس کا کلیدی مقصد حملوں میں کمی اور اس پٹی سے بعض افواج کا انخلاء ہے۔
اس رپورٹ میں ہم اس واقعے کا جائزہ لیں گے کہ کیا صہیونی فوج واقعا پسپائی اختیار کر رہی ہے؟
پہلا مرحلہ، ریکارڈ طور پر حیران کن حملے
7 اکتوبر نے صیہونیوں کو اس قدر الجھا دیا کہ انہیں اپنے قیدیوں کو رہا کرنے اور غزہ میں حماس کے ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا ہدف متعین کرنے میں تین دن لگے۔
یہ اسرائیلی حملہ امریکی افواج اور تھنک ٹینک کی مدد سے کیا گیا جس میں بیس دن تک فضائی حملے اور بمباری جاری رہی۔ اس وحشیانہ حملے کو جنگ کا پہلا مرحلہ کہا گیا۔
پہلے دو ہفتوں میں صہیونیوں کا خیال تھا کہ مختصر جارحیت سے اہداف حاصل کر پائیں گے لہذا انہوں نے کھل کر مختصر مدت کی جنگ، شمالی غزہ پر دوبارہ قبضے اور قیدیوں کی رہائی کے لیے مزاحمت کو مجبور کرنے کے بارے میں بڑے طمطراق سے بات کی۔ لیکن زمینی حقیقت ان کی منشاء کے بر خلاف رہی۔
دوسرا مرحلہ اور زمینی جنگ کا آغاز
بائیسویں دن سے صہیونی فوج دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئی، یعنی زمینی حملوں کا آغاز اور غزہ کی پٹی میں داخل ہونا۔ پہلے ہفتوں میں فضائی حملوں کا حجم اتنا عجیب اور بے مثال تھا کہ 30ویں دن تک تقریباً دس ہزار فلسطینی شہید اور غزہ کے کم از کم نصف حصے کو نقصان پہنچا۔ جبکہ 2014 کی جنگ میں صہیونی جرائم کے دوران 51 دنوں میں 2500 افراد کو شہید کیا گیا تھا۔
اگرچہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پہلے مرحلے میں بے مثال فضائی حملے زمینی پیش قدمی کو آسان بنائیں گے، لیکن یہ صہیونی فوج کے لیے توقع سے کہیں زیادہ مہنگا ثابت ہوا۔ اس واقعے کے بعد صیہونی حکومت کے خلاف تنقید کی لہر میں شدت آگئی اور آخر کار اس مسئلے سے جان چھڑانے کے لیے 24 نومبر (جنگ کے 49ویں دن) کو نیتن یاہو نے قیدیوں کے تبادلے کے بدلے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی۔ یہ جنگ بندی 7 دن تک جاری رہی۔
جنگ بندی کے خاتمے اور دوبارہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی صیہونی فوج، جسے غزہ کی پٹی کے شمال میں کوئی عسکری یا سیاسی کامیابی نہیں ملی تھی، جنوب میں خاص طور پر خان یونس کی طرف چلی گئی جو کہ ایک واضح جنگی ناکامی تھی۔
گذشتہ ہفتے اسرائیل کے چینل 11 کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 64 فیصد صہیونی اپنے وزیراعظم کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں اور صرف 32 فیصد مطمئن ہیں۔
حالات کا بہاو بالآخر اس حقیقت کا باعث بنا کہ صیہونی حکومت کے وزیر جنگ نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا: “اسرائیل نے غزہ میں شدید لڑائی کے مرحلے سے خصوصی آپریشنز (محدود لڑائی) کے مرحلے کی طرف منتقلی کا آغاز کر دیا ہے ۔
جنگ کا تیسرا مرحلہ کیا ہے؟
تیسرے مرحلے کی تعریف صہیونی میڈیا میں ایک ہفتہ قبل بیان کی گئی تھی جس کا مقصد نفسیاتی شکست کی خفت مٹانے کے لئے ماحول سازی کرنا تھا، اس مرحلے کا مقصد فوجیوں کی ایک تعداد کی عقب نشینی اور انخلاء کے ذریعے ٹارگٹیڈ آپریشن پر توجہ مرکوز کرنا اور فضائی حملوں کو کم کرنا تھا۔ لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اس مرحلے کو اسرائیلی فوجی حکمت عملی کی شکست اور میدانی منظر نامے کی ناکامی کا نام دیا جائے۔
کیونکہ غاصب رجیم اپنی ذلت آمیز شکست کو چھپانے کے لئے افواج کے باوقار انخلاء اور ایک نئی سیکورٹی بیلٹ کی خواہاں ہے۔
لہذا اس دوران نشر ہونے والی خبروں میں غزہ کی پٹی کے شمال میں ایک بڑی سطح کے انخلاء کو دکھایا گیا ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک سینیئر امریکی اہلکار کے حوالے سے لکھا: ’’اسرائیل نے شمالی غزہ سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنی ہزاروں افواج کو واپس بلا لیا ہے اور تل ابیب نے واشنگٹن کو مطلع کیا ہے کہ وہ اپنی افواج کی تعداد کم کرنے کے ساتھ فضائی بمباری میں بھی کمی لائے گا۔
صیہونی حکومت کے نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے سابق سربراہ جنرل آموس یدلین نے جنگ کے تیسرے مرحلے کے بارے میں ایک مضموب میں لکھا: “ان دنوں اسرائیلی فوج ریزرو فورسز کو بڑے پیمانے پر چھوڑ رہی ہے اور تربیت کے لیے جنگی ڈھانچے کی طرف لوٹ رہی ہے۔ جنگ کے تیسرے مرحلے کی تیاریوں کے ایک حصے کے طور پر اس کا آغاز غزہ سے ہوا۔
مزید ریزرو فورسز کی پسپائی سے جنگ کے بھاری اخراجات میں ڈرامائی طور پر کمی آئے گی اور معیشت اور تجارت کو دوبارہ متحرک کرنے کا موقع ملے گا۔ جنگ کا تیسرا مرحلہ عسکری، سیاسی اور اقتصادی نقطہ نظر سے اسرائیل کے حق میں ہے۔ “
انہوں نے مزید لکھا کہ غزہ میں موجودہ فوجی مہم ختم ہونے والی ہے اور اسرائیل کو جانی اور معاشی نقصان کو کم کرنے کے لئے جنگی وقفے کے طور پر سانس لینے کی ضروت ہے تاکہ حماس کے خلاف پھر سے ایک فعال جنگ شروع کی جا سکے۔”
کیا جنگ ختم ہو چکی ہے؟
لیکن واضح رہے کہ تیسرے مرحلے کے آغاز کا مطلب غزہ کی جنگ اور طوفان الاقصیٰ کا خاتمہ نہیں ہے۔ صیہونیوں کو امید ہے کہ وہ وقت گزرنے اور غزہ میں صحت اور خوراک کے بحران سمیت انسانی حالات کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے ساتھ وہ اہداف حاصل حاصل کریں گے جو انہیں میدان میں نہیں ملے۔ یوں وہ مزاحمتی قوتوں کو اپنے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کریں گے۔
ساتھ ہی یہ بھی واضح رہے کہ غزہ کا مستقبل ایک اہم اور فیصلہ کن مسئلہ ہے جسے صہیونی جنگ کے بعد آنے والا کل یا مستقبل کہتے ہیں۔
آموس یادلین اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: “جنگ کے اگلے مرحلے میں منتقلی اسرائیل کو غزہ میں مستقبل کی حقیقت کی تشکیل میں حصہ لینے کی اجازت دے سکتی ہے۔ حماس کو معلوم ہونا چاہیے کہ عرب دنیا اور مغرب غزہ پر حکمرانی کا متبادل بنا رہے ہیں اور حماس یقیناً اس حکمرانی کا حصہ نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ صیہونیوں کا اس وقت غزہ میں جرائم کے خاتمے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ غزہ پر انسانی بحران اور علاقائی کشیدگی کو بڑھا کر جنگ کے بعد کے حالات کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن جنگ کا تیسرا مرحلہ پچھلے دو مرحلوں سے زیادہ مشکل اور سخت ہے۔
محسن فیضی؛ مغربی ایشیائی امور کے ماہر