[]
حیدرآباد: تلنگانہ اسٹیٹ الیکٹرسیٹی ریگولیٹری کمیشن (ٹی ایس ای آر سنا) نے بتایاجاتا ہے کہ ریاست کے زیر انتظام پاور یوٹی لینٹیز کو 31 جنوری تک مجموعی طورپر درکار آمدنی کے حصول (اے آرآر) کیلئے تجاویز پیش کرے‘ اس کے ساتھ ہی ان قیاس آرائیوں کا سلسلہ چل پڑاہے کہ حکومت تلنگانہ ڈسکام کو برقی شرحوں میں اضافہ کرنے کی اجازت دے سکتی ہے تاکہ مالیاتی سال 25-2024 کے قرض کے بوجھ کوکم کیاجاسکے۔
ذرائع نے بتایا کہ اگر برقی شرحوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا ہے تو پاور یوٹی لیٹیز کی برقراری مشکل ہوجائے گی۔ اگر برقی شرحوں (ٹیرف)میں اضافہ نہ کرنے سے ہر روز قرض کا بوجھ بڑھتاہی چلاجائے گا۔
اگرکسی وجہ سے کانگریس حکومت‘برقی شرحوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے (حکومت) کو برقی خریدی اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے ڈسکام کو 25 ہزار کروڑ روپے کی سبسیڈی رقم ڈسکام کوادا کرنا پڑے گاجبکہ حکومت نے رواں مالیاتی سال میں قرضوں کی ادائیگی اور برقی خریدی کے لئے ڈسکام کو 11ہزار کروڑروپے مختص کئے ہیں۔
ڈسکام کے موجودہ مالیاتی بحران کومدنظر رکھتے ہوئے اس ادارہ (ڈسکام) مالیاتی بحران سے باہر نکلنے کے لئے برقی شرحوں میں اضافہ کی اجازت طلب کرے گا۔
معلوم ہواہے کہ ڈسکام نے حالیہ دنوں ریکولیٹری کمیشن میں تجاویز داخل کی ہیں جس کی رو سے ڈسکام نے یکم اپریل سے 20ستمبر(2024) تک کھلی رسائی سے برقی خرید نے اوراسے استعمال کرنے والے صارفین سے فی یونٹ ایک روپیہ 95پیسے سرچارج وصول کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔
بتایا جاتاہے کہ تلنگانہ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن‘ان تجاویز پر 9 فروری کوغورکرے گا۔ہر سال نئے مالی سال کے آغازسے پہلے برقی چارجس پر نظرثانی کے لئے ڈسکام کوکمیشن کے سامنے تجاویز پیش کرنی ہوتی ہیں تاہم گزشتہ سال 30 نومبر کو ریاستی اسمبلی انتخابات کے پیش نظر پیش روحکومت اس بارے میں فیصلہ نہیں کرسکی۔
ڈسکام سے مبینہ طورپرکہاگیا تھا کہ وہ 2جنوری تک تجاویز پیش کرے مگر وہ تجاویز داخل کرنے میں ناکام رہاجس کے سبب تلنگانہ اسٹیٹ الیکٹرسیٹی ریگولیٹری کمیشن نے ایک بار پھر ڈسکام سے کہا ہے کہ وہ 31جنوری تک اے آر آر (مجموعی آمدنی درکار) داخل کرے۔
اے آر آر کے ادخال کے اندرون 120یوم کمیشن اس پر عوامی سماعت کرے گا اور 31 مارچ تک برقی چارجس پر نظرثانی کے بارے میں حتمی فیصلہ کرے گا۔ اس فیصلہ کی بنیاد پر ڈسکام یکم اپریل (نئے مالیاتی سال)سے برقی چارجس میں اضافہ کرسکتا ہے۔