لوک سبھا الیکشن کے اعلان سے قبل سی اے اے قواعد کی اجرائی

[]

نئی دہلی: شہریت (ترمیمی) قانون 2019 کے قواعد و ضوابط کا لوک سبھا الیکشن شیڈول جاری ہونے سے قبل اعلان کردیا جائے گا۔ ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے منگل کے دن یہ بات بتائی۔ نریندر مودی حکومت کے سی اے اے کے تحت بنگلہ دیش‘ بھوٹان اور افغانستان سے عتاب جھیل کر 31 دسمبر 2014 سے قبل ہندوستان آچکے غیرمسلم مائیگرنٹس ہندوؤں‘ سکھوں‘ جین‘ بدھسٹ‘ پارسی اور عیسائیوں کو ہندوستانی شہریت دے دی جائے گی۔

 دسمبر 2019 میں پارلیمنٹ میں سی اے اے کی منظوری کے بعد ملک کے بعض حصوں میں زبردست احتجاج ہوا تھا۔ عہدیدار نے کہا کہ ہم سی اے اے قواعد وضوابط بہت جلد جاری کرنے والے ہیں۔ ان کی اجرائی کے بعد قانون کو روبہ عمل لایا جاسکے گا۔

اہل افراد کو ہندوستانی شہریت دی جاسکے گی۔ قواعد و ضوابط کی اجرائی میں زائداز4 سال کی تاخیر ہوئی حالانکہ سی اے اے کی عمل آوری کے لئے یہ لازمی ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ آیا قواعد وضوابط کو اگلے لوک سبھا الیکشن کے اعلان سے قبل نوٹیفائی کردیا جائے گا‘ عہدیدار نے کہا کہ ہاں اُس سے بہت پہلے۔

 امکان ہے کہ لوک سبھا الیکشن اپریل۔ مئی میں ہوگا۔ عہدیدار نے کہا کہ قواعد وضوابط تیار ہیں اور آن لائن پورٹل بھی تیار ہے۔ سارا پراسیس آن لائن ہوگا۔ درخواست گزاروں کو بتانا ہوگا کہ وہ کاغذات ِ سفر کے بغیر کونسے سال ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔

 درخواست گزاروں کے لئے کوئی دستاویز داخل کرنے کی ضرورت نہیں۔ 27 دسمبر کو مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ سی اے اے پر عمل آوری کو کوئی بھی روک نہیں سکتا کیونکہ یہ ملک کا قانون ہے۔ انہوں نے چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی پر اس مسئلہ پر عوام کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس‘ سی اے اے کی مخالفت کررہی ہے۔ پچھلے لوک سبھا اور مغربی بنگال اسمبلی الیکشن میں متنازعہ سی اے اے لاگو کرنا بی جے پی کا بڑا سیاسی نعرہ تھا۔ پارلیمنٹ میں سی اے اے قانون کی منظوری کے بعد مظاہروں کے دوران یا پولیس کارروائی میں 100 سے زائد جانیں گئی تھیں۔

گزشتہ 2 سال میں 30 ضلع مجسٹریٹس (کلکٹرس) اور 9 ریاستوں کے معتمدین داخلہ کو اختیارات دیئے گئے کہ وہ 1955 کے شہریت قانون کے تحت اُن ہندوؤں‘ سکھوں‘ بدھسٹ‘ جین‘ پارسی اور عیسائیوں کو ہندوستانی شہریت دیں جو افغانستان‘ بنگلہ دیش اور پاکستان سے آئے ہوں۔ آسام اور مغربی بنگال کے کسی بھی ضلع کے حکام کو یہ اختیار ابھی تک نہیں دیا گیا۔ ان 2 ریاستوں میں یہ مسئلہ سیاسی لحاظ سے بڑا حساس ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *