حزب اللہ شمالی محاذ پر پوری طرح حاوی ہے، صیہونی میڈیا کا اعتراف

[]

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی ہے کہ تل ابیب کو امریکی حمایت حاصل کئے بغیر لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ جنگ، بہت مہنگی پڑے گی۔

صیہونی سرکاری چینل 12 کے سیاسی امور کے تجزیہ کار ایمنون ابرامووچ نے اس حوالے سے کہا: میں میڈیا سنسرشپ قوانین کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا لیکن اگر حزب اللہ ہمارے ساتھ جنگ ​​چھیڑتی اور امریکی صدر جو بائیڈن اسے نہ روکتے تو ہمیں حزب اللہ کے خلاف پتھروں اور لاٹھیوں سے لڑنا پڑتا”

مذکورہ صیہونی سرکاری ٹی وی  چینل کے سیاسی امور کے تجزیہ کار دانا فایس نے بھی شمالی محاذ کے بارے میں کہا: اگر ہم شمال میں جنگ میں جانا چاہتے ہیں تو ہم ایسی چیزیں دیکھیں گے جو ہم نے پہلے نہیں دیکھی ہیں۔ جو اس جنگ کی قیمت ادا کرے گا وہ غوش دان (مقبوضہ علاقوں کے شمال میں صہیونی بستیاں) کے مرکز میں اسرائیل کا داخلی محاذ ہوگا۔

فایس کا مزید کہنا ہے کہ مقبوضہ علاقوں کے شمال میں ہمہ گیر جنگ کا آغاز اسٹریٹجک نقصانات کا سبب بنے گا اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو شمالی محاذ پر جنگ شروع ہونے سے بہت خوفزدہ ہیں۔

صیہونی حکومت کی داخلی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ جیورا جزیرہ نے بھی شمال کی صورت حال کو پیچیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک شمالی آباد کار اپنی بستیوں کی طرف واپس نہیں جاتے، اسرائیل کو سٹریٹجک نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب تک کوئی بھی لبنان کی حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ہمہ گیر جنگ شروع ہونے کے خواہاں نہیں ہے لیکن جوں جوں تنازعات بڑھیں گے دباؤ کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا۔

صیہونی رجیم کے ٹی وی چینل 13 کی رپورٹر شلومی ایلدار نے بھی مقبوضہ علاقوں کے شمال میں صیہونی آبادکاروں کے بڑھتے ہوئے غصے اور تشویش کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں انہیں ایک نوٹس موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ آئندہ دو مہینوں تک اپنے گھروں سے باہر رہیں۔ جب کہ وہ پہلے ہی تین مہینوں سے بے گھر ہیں۔

ادھر صیہونی حکومت کے چینل 13 پر عرب مسائل کے تجزیہ کار حیزی سمانتوف کا کہنا ہے: یہ حزب اللہ ہی طے کرتی ہے کہ شمال میں جنگ کب تک رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے پاس مناسب جنگی حربہ موجود ہے اور وہ اس جنگ میں فیصلہ کن طاقت  رکھتی ہے۔ اور بند دروازوں کے پیچھے جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بنیاد پر حزب اللہ کے مفادات اسرائیل کے ساتھ متصادم ہیں اور واحد مسئلہ اس جنگ کا وقت اور تاریخ ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *