[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: محاذ مقاومت کے عظیم کمانڈر شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو چار سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کی کوششیں فلسطینی قوم اور اسلامی مزاحمت کے قائدین کے دلوں میں زندہ ہیں، شہید سلیمانی نے فلسطین کی اسلامی مزاحمت کو ہر طرح سے مسلح کرنے میں اہم کردارادا کیا اور بہت سے علاقائی ماہرین کا خیال ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن میں فلسطینیوں کی آج کی فتوحات شہید قاسم سلیمانی کے منصوبوں کی مرہون منت ہیں، اس مسئلے پر فلسطینی اسلامی مزاحمت کے رہنماؤں کے بیانات میں واضح طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس سلسلے میں مہر کے نامہ نگار نے لبنانی میڈیا ایکٹیوسٹ، علاقائی امورکے سینئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر حکم حسین امہز سے گفتگو کی جو درج ذیل ہے۔
قدس فورس کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے غاصب صیہونی رجیم کے خلاف جنگ میں فلسطینیوں کو مسلح کرنے میں شہید سردار سلیمانی کے کردار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
شہید قاسم سلیمانی کا کردار مسئلہ فلسطین میں ایک انتہائی تزویراتی کردار ہے۔ کیونکہ انہوں نے فلسطینی مزاحمت کو ہلکے ہتھیاروں کے استعمال سے لے کر انتہائی اہم ہتھیاروں جیسے بیلسٹک میزائل اور جدید ڈرون اور اہم جنگی ٹیکنالوجی کے استعمال کے مرحلے تک پروان چڑھایا۔
ہم شہید سلیمانی کو فلسطین میں مزاحمتی کارروائیوں میں ایک اہم شخصیت کے طور پر بھی بیان کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ غزہ میں سرنگ کھودنے کے منصوبے اور خاص طریقوں سے ہتھیاروں کی فلسطین منتقلی اور خفیہ طور پر انہیں فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے پلان کے بھی سرخیل تھے۔
شہید سردار سلیمانی نے فلسطین کی اسلامی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگی مساوات کو فلسطینیوں کو مسلح کرکے اس طرح بدل دیا کہ اس سے قبل جنگیں عرب خطے میں ہوتی تھیں۔ لیکن اب صیہونی رجیم کے مقبوضہ علاقوں میں ہوتی ہیں۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے چار سال بعد آج ہم غزہ میں حماس کی شاندار کامیابیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں، آپ کے خیال میں ان فتوحات میں شہید سلیمانی کا کردار اور مقام کیا ہے؟
آج ہمیں اسرائیل کے اندر جنگ میں شہید سلیمانی کا بھرپورکردار دکھائی دیتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ فلسطینی اسلامی مزاحمت تل ابیب اور صہیونی بستیوں کے علاقوں کو نشانہ بناتی ہے، اور اب یہ جنگیں اسرائیل سے باہر نہیں ہوتیں۔ شہید سلیمانی نے جنگی حکمت عملی کو فلسطین کی اسلامی مزاحمت کو منتقل کیا۔ شہید نے ایک مضبوط حکمت عملی اور منصوبہ بند انجینئرنگ کو صیہونی حکومت کے خلاف جنگی خطرے کے طور پر فراہم کیا۔ آج فلسطین کی اسلامی مزاحمت ہی میدان میں دشمن پرمساوات مسلط کرتی ہے جبکہ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔
درحقیقت ہم ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے کے زمانے کی بات کر رہے ہیں، یعنی انقلاب سے پہلے فلسطین اور فلسطینیوں کی مزاحمت کی صورت حال کیا تھی؟ اور عرب اور اسلامی اقوام کا کیا حال تھا؟ وہ مایوسی اور ناکامی کی بدترین صورت حال کا شکار تھیں۔ نتیجتاً فلسطین کی آزادی اور اسرائیل پر فتح کی کوئی امید نظرنہیں آرہی تھی، لیکن آج ایک بہت بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور مایوسی امید میں بدل گئی ہے اور اس امید نے فلسطین کی آزادی اورایک عظیم فتح کا امکان فراہم کر دیا ہے۔
اس حوالے سے شواہد یہ ہیں کہ لبنان نے اسرائیل سے آزادی حاصل کی اور غزہ نے بھی اسرائیلی فوج کے ہاتھ سے خود کو آزاد کر لیا اور مزاحمت نے اسرائیل کی مساواتیں بدل دیں اور اسرائیل کا افسانوی بھرم خاک میں مل گیا اور اسرائیلی فوج کو شکست ہوئی۔ فرات سے لے کر دریائے نیل تک ایک عظیم اسرائیل کا خواب حسرت میں بدل گیا۔ آج اسرائیل غزہ کی دوسری سرحد پر مغربی کنارے میں دیواروں کے پیچھے واقع ہے، اس لیے یہ تمام فتوحات اور اقدامات شہید قاسم سلیمانی کی اعلی ذہانت کے مرہون منت ہیں۔
شہید سلیمانی نے شام اور عراق جیسے خطے کے محاذوں پر اپنی کوششوں کے باوجود غزہ میں محصور فلسطینی اسلامی مزاحمت کو اسٹریٹجک منصوبوں اور ہتھیاروں سے کیسے لیس کیا؟
اسرائیل کے خلاف جنگ سٹریٹیجک تبدیلیوں اور کامیابیوں کے طویل جہادی راستوں سے حاصل ہوئی۔ لہٰذا، ہم مزاحمت کے دفاع میں شہید سلیمانی کے کردار کو مخصوص علاقوں میں محدود نہیں کر سکتے، کیونکہ مثال کے طور پر جب ہم شہید کی طرف سے مزاحمت کو مسلح کرنے کی بات کرتے ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ وہ اس کے پیچھے براہ راست موجود تھے، بلکہ انہوں نے مزاحمت کو تربیت دی اوریہ صیہونی حکومت کے خلاف لڑنے کا ایک اسٹریٹجک طریقہ ہے اسی طرح میزائل ٹیکنالوجی اور سٹریٹجک ہدف کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی وغیرہ۔
اس کے علاوہ شہید سلیمانی نے بہت سی تبدیلیوں کو جنم دیا۔ جب ہم بدلتی جنگی مساوات کی بات کرتے ہیں یا سرنگوں اور دیگر بہت سے مسائل کے بارے میں، تو ہمیں ان تمام منصوبوں کے پیچھے شہید سلیمانی نظر آتے ہیں اور یہ بات ہمارے سیاسی تجزیے کی محتاج نہیں بلکہ فلسطینی مزاحمتی قیادت اور خطے کے دیگر مزاحمتی رہنماؤں نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کیونکہ ان کے پاس اس کے حقیقی ثبوت تھے۔
مثال کے طور پر سرنگوں کا مسئلہ؛ فلسطینی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان سرنگوں کے ماسٹر مائنڈ شہید سلیمانی اور شہید عماد مغنیہ تھے۔ شہید سلیمانی نے اس عمل ککے ذریعے اسرائیل کو ایک بڑی طاقت ہونے کے افسانے سے محور مقاومت کے مقابل ایک کمزور قوت میں اس طرح بدل دیا کہ آج اس رجیم کو مزاحمت کے خلاف مدد کی ضرورت پیش آئی ہے اور وہ خاتمے کے دہانے پر ہے۔ دوسری طرف فلسطین کی آزادی کا امکان قوی تر ہوگیا ہے، جب کہ اس سے پہلے یہ آپشن نچلی سطح پر تھا۔
ایک لبنانی تجزیہ کار کے طور پر آپ مختلف علاقائی معاملات میں شہید سلیمانی کے کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں اور ان کا موازنہ دنیا کے دیگر ممتاز انقلابیوں سے کہ جنہوں نے امریکی سامراج کے خلاف جدوجہد کی، کس طرح کرتے ہیں؟
شہید قاسم سلیمانی اس دنیا میں ایک دانشور اور سکالر تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک بین الاقوامی مجاہد و مبارز تھے۔ مزید برآں، جب ہم لاطینی امریکہ میں چی گویرا کے کردار کی بات کرتے ہیں، تو وہ صرف امریکہ میں سامراج کے خلاف ایک بین الاقوامی انقلابی تھے، لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کا کردار زیادہ جامع تھا، کیونکہ انہوں نے عالمی استکبار، دہشت گرد صیہونی حکومت اور داعش کے تکفیریوں کے خلاف وسیع پیمانے پر مزاحمت کی۔ انہوں نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مساوات کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ہم یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ اور روس، چین کے دمیان دو قطبی نظام کے تنازعات کی سطح پر اسٹریٹجک مساوات کو تبدیل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔