سلامتی کونسل: غزہ امن قرارداد کی منظوری

[]

مسعود ابدالی

مصنوعی ذہانت (AI) کے امریکی ادارے سینتھیٹیک (Synthetaic) اور CNNنے مصنوعی سیارے سے حاصل کی جانے والی تصاویر یا Satellite Images کے ذریعے غزہ پر اسرائیلی بمباری کا تجزیہ کیا ہے۔ سینتھیٹیک کا کہنا ہے کہ بمباری کے پہلے ماہ یعنی 7 اکتوبر سے 7 نومبر کے دوران غزہ پر 2000 پونڈ کے سیکڑوں بم گرائے گئے۔ امریکہ کے فراہم کردہ یہ خوفناک بم مقامِ نزول پر 1000 فٹ کے علاقے کو مٹی کا ڈھیر بنادینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مصنوعی سیاروں سے لی جانے والی تصاویر میں 12 میٹر ٖچوڑے اور 3 میٹر گہرے 500 گڑھے نظر آرہے ہیں جو صرف ایک ماہ کی بمباری کا نتیجہ ہیں، جبکہ آج یعنی 25 دسمبر کو آتش و آہن کی موسلا دھار بارش کا 79 واں دن ہے۔ پہلے 30 دنوں میں اس پٹی کا 6 کلومیٹر علاقہ گہرے گڑھے میں تبدیل کردیا گیا۔ غزہ دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے جہاں اوسطاً ہر کلومیٹر رقبے پر 6507 نفوس آباد ہیں۔ گویا 39ہزار افراد زندہ درگور یا بے گھر ہوگئے۔ اس سے پہلے امریکہ یہ مہلک بم عراقی شہر موصل میں استعمال کرچکا ہے۔ امریکہ نے 5400 ایسے بم اسرائیل کو فراہم کیے ہیں۔ سینتھیٹیک کے مطابق کچھ گڑھے 24 میٹر چوڑے ہیں۔ 27 اکتوبر کو زمینی حملے کے بعد سے بمباری میں شدت آچکی ہے اور اب اسرائیل بنکر شکن بم استعمال کررہا ہے جو کنکریٹ کو ریت کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں غزہ کی 24 لاکھ آبادی کا 80 فیصد حصہ بے گھر ہوچکا ہے۔ لاکھوں ٹن بارود سے سطحِ زمین، آب نوشی و آب پاشی کے وسائل، زراعت و مویشی بانی اور زیر زمین پانی کے ذخائر پر جو تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں اس کے تجزیے کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا۔
اسرائیلی وزیراعظم انتہائی ڈھٹائی سے اسے ناگزیر یا Collateral نقصان قرار دے رہے ہیں۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی فضائی حملے کی مثال دی۔ یہ مشن جرمن خفیہ پولیس گسٹاپو کے مرکز کو تباہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن غلطی سے کوپن ہیگن میں ایک اسکول نشانہ بن گیا جس میں 86 بچے ہلاک ہوگئے۔ اُس وحشیانہ حملے کے دفاع میں بی بی بولے ”یہ جنگی جرم نہیں تھا، نہ یہ ایسا کچھ تھا کہ جس کے لیے آپ برطانیہ کو مورد الزام ٹھیرائیں۔ یہ ایک ”جائز“ جنگی عمل تھا جس کے نتائج کبھی کبھی المناک ہوجاتے ہیں۔“
کچھ ایسی ہی بےحسی کا اظہار امریکی صدر بائیڈن نے بھی کیا۔ جمعہ 22 دسمبر کو انھوں نے فون پر اسرائیلی وزیراعظم سے تفصیلی گفتگو کی جس کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بی بی سے انتہائی احتیاط کی درخواست کی تاکہ غزہ میں شہری نقصان کم سے کم ہو۔ اور پھر خود ہی پُرغرور لہجے میں بولے ”میں نے جنگ بندی کی بات نہیں کی“۔ امریکہ نے اسی رویّے کا مظاہرہ اقوام عالم کے سامنے بھی کیا جب پہلے تو سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو انتہائی حقارت سے ویٹو کردیا، اور جب بعد میں یہی قرارداد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھاری اکثریت سے منظور ہوگئی تو دبائو میں آکر چچا سام کا مؤقف کچھ نرم ہوا۔ اس تبدیلی کی بڑی وجہ اسرائیل میں اپنے جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے زبردست عوامی مہم تھی۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ لنڈا ٹامس کرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ غزہ میں انسانی امداد کی بحالی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے قیامِ امن کی ایسی قرارداد کی حمایت کرے گا جس کا متن ”قابلِ قبول، معتدل اور موثر“ ہو۔ یقین دہانی کے ساتھ نخرے بلکہ نخوت کا یہ عالم کہ ”عشوہ بھی ہے شوخی بھی، تبسم بھی حیابھی“۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کا لفظ ”جنگ بندی“ (Ceasefire) امریکہ کے لیے ناقابلِ قبول تھا، چانچہ اسے منانے کے لیے ”کشیدگی کا خاتمہ“ (Cessation of hostilities) تجویز ہوا۔ اس پر بھی واشنگٹن راضی نہ ہوا اور ترمیم کرکے اسے ”کشیدگی میں معطلی“(Suspension of hostilities) کردیا گیا۔ کشیدگی میں معطلی، یعنی عارضی فائربندی اہلِ غزہ کو قبول نہیں۔ قطر سے مستضعفین کے ترجمان نے صاف صاف کہہ دیا کہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کی 7 اکتوبر کی پوزیشن پر واپسی ضروری ہے۔ اس دوٹوک ردعمل پر ماہرین نے پھر سرجوڑ لیے اور روسی نمائندوں نے سمجھایا کہ اہلِ غزہ کو زمین پر برتری حاصل ہے، چچا سام اور ان کے بچہ جمہورا کے ناز و لاڈ اٹھانے کا وقت گزر گیا کہ اب باگیں مستضعفین کے ہاتھوں میں ہیں۔ ہفتے بھر کے مزید بحث مباحثے کے بعد سلامتی کونسل نے غزہ امن قرارداد منظور کرلی، جس میں فریقین کو مستقل بنیادوں پر کشیدگی ختم کرنے (Sustainable cessation of hostilities)کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرارداد میں غزہ کے لیے انسانی امداد بڑھانے اور امدادی سرگرمیاں مؤثر کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی یہ قرارداد 13صفر سے منظور ہوگئی۔ امریکہ اور روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ قرارداد کے متن سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تحریک اُن ”موذیوں“ کا منہ بند کرنے کے لیے منظور ”کروائی“ گئی ہے جو جنگی قیدیوں کی واپسی سے بی بی، اور غزہ امن سے امریکہ کی عدم دلچسپی پر تنقید کررہے ہیں۔
تکبر کی بنا پر بی بی کا لہجہ اب تک نہیں بدلا لیکن بھاری جانی نقصان نے اسرائیلی قیادت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اہلِ غزہ دعویٰ کررہے تھے کہ اسرائیل کے مایہ ناز گولانی بریگیڈ کا ایک چوتھائی حصہ تباہ ہوچکا ہے۔ درجنوں افسران و سپاہی تابوت کی زینت اور سیکڑوں ٹینک، بکتربند گاڑیاں اور بلڈوزر رزقِ خاک بن گئے۔ گزشتہ ہفتے الجزیرہ عربیہ نے انکشاف کیا کہ گولانی بریگیڈ کو غزہ سے واپسی کا حکم دے دیا گیاہے۔ 1948ء میں قائم ہونے والا گولانی یونٹ اسرائیل کے پانچ پیدل (Infantry)بریگیڈ میں سے ایک، اور انتہائی تربیت یافتہ لڑاکا یونٹ سمجھا جاتا ہے۔ عین حالتِ جنگ میں بریگیڈ کی واپسی سے مستضعفین کے دعوے میں کچھ صداقت نظر ارہی ہے۔
جمعہ 22 دسمبر کو اسرائیلی عسکری تجزیہ نگار Amos Harel کا روزنامہ الارض (Haaretz)کے عبرانی ایڈیشن میں مضمون شائع ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ ”اسرائیلی سیاست دانوں کے بیانات اور غزہ کی زمینی حقیقت کے درمیان خلا کو (خواہشات کے پُل سے) پاٹنا مشکل ہے“۔ اسی دن الارض کے انگریزی ایڈیشن میں اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ (Ehud Olmert)نے لکھا کہ ”اگر اسرائیل غزہ سے 130 یرغمالیوں کو وطن واپس لانا چاہتا ہے تو اسے جنگی حکمتِ عملی کا رخ تبدیل کرنا ہوگا۔ مستضعفین کو ختم نہیں کیا جاسکتا، بھلے انتہائی مطلوب ہٹ لسٹ میں شامل اس کے تمام رہنما ہلاک یا پکڑے جائیں۔ (بی بی کے اقدامات سے) دہشت گردی کا خاتمہ تو نہیں ہوگا، ہاں (خدانخواستہ) مزید یرغمالی ہلاک ہوسکتے ہیں۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے، زندہ یرغمالیوں کے ساتھ جنگ بندی، یا مرنے والوں کے ساتھ جبری جنگ بندی“۔
دوسری طرف یمن کے حوثیوں نے بحیرہ احمر کو اسرائیل آنے اور جانے والے جہازوں کے لیے علاقہ ممنوعہ بنادیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی ختم ہونے تک وہ اسرائیلی جہازوں کو بحیرہ احمر سے نہیں گزرنے دیں گے۔ جس کی وجہ سے اسرائیلی بندرگاہ ایلات ویران ہوگئی۔ شمالی بحیرہ احمر میں خلیج عقبہ کے دہانے پر قائم یہ بندرگاہ بحر مردار (Dead Sea)سے پوٹاش اور دوسری قدرتی نمکیات کی برآمد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ رائٹرز کے نمائندے کو بندرگاہ کے سربراہ نے بتایا کہ سرگرمی میں 85 فیصد کمی ہوگئی ہے۔ بحیرہ مردار کو بحیرہ لوطؑ بھی کہتے ہیں۔
یہ صورتِ حال امریکہ کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ متکبر واشنگٹن کے لیے یہ تصور ہی شرمناک ہے کہ حوثی ملنگ بحیرہ احمر میں اس کے لاڈلے کا ناطقہ بند کردیں۔ بحیرہ احمر پر بالادستی کو لاحق خطرے کے مقابلے کے لیے امریکہ نے اپنے 9 اتحادیوں کے ساتھ ایک بحری ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا اور 19 دسمبر کو امریکی وزیرخارجہ نے مزید رعب جھاڑتے ہوئے کہا کہ اب ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 20ہوگئی ہے۔ اس اتحاد کو نگہبانی خوشحالی مہم یا Operation Prosperity Guardianکا نام دیا گیا۔ یہ خبر سن کر حوثیوں نے ہانک لگائی کہ فی الحال تو ہمارا ہدف صرف اسرائیل کے بحری و تجارتی مفادات ہیں لیکن اگر ”گارڈین“ کو اپنے بدتمیز چھوکرے کی پیٹھ ٹھونکنے پر اصرار ہے تو ہم انھیں بھی ٹھونکنے کو تیار ہیں۔ دھمکی میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے انھوں نے بحرہند میں ہندوستانی ریاست گجرات کے ساحل پر ویراول بندرگاہ کے قریب آتشیں کیماوی مواد سے لدے لائبیریا کے پرچم بردار ایک اسرائیلی جہاز کو نشانہ بناڈالا۔
اس دھمکی کے بعد نگہبانی خوشحالی مہم کے کچھ اہم ارکان نے احتیاط کے گھونگھٹ کاڑھنے شروع کردیے ہیں۔ فرانس نے مہم کے مقصد سے تو اتفاق کا اظہار کیا لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ اپنی باگیں چچا سام کے ہاتھوں میں دینے کے بجائے فرانسیسی جہاز اپنے ملک کی بحری کمان کے تحت کام کریں گے۔ اٹلی نے ایک تباہ کن جہاز Virginio Fasan علاقے کی طرف روانہ کیا لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ جہاز بحیرہ احمر میں اطالوی بحری مفادات کے تحفظ کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہ نگہبانی خوشحالی مہم کا حصہ نہیں۔ اسپین نے اعلان کیا کہ اس کے بحری دستے نیٹو اور یورپی یونین کی کمان میں رہیں گے۔ نیدرلینڈ (ہالینڈ) نے مہم میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کرکے بحریہ کے 10 افسران بحرین بھیجنے کا اعلان کردیا۔ ڈنمارک نے بھی مہم میں حصہ لینے کے لیے اپنے ایک افسر کی خدمات پیش کردیں۔ معلوم نہیں امریکی اتحادیوں کے اس مسخرانہ طرزعمل کی وجہ واشنگٹن پر عدم اعتماد ہے یا حوثیوں کا خوف کہ بحرہند کی طرح کہیں یہ اپنا دائرئہ کار آبنائے جبل الطارق، بحر روم اور بحراوقیانوس تک نہ بڑھادیں۔
حکمرانوں کے بے حس رویّے کے برخلاف اسرائیل اور مغرب کے لیے عرب عوام کے جذبات بھی شدید ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ نے سعودی عرب کے بارے میں ایک جائزہ شایع کیا ہے جس کے مطابق 96 فیصد سعودیوں کا خیال ہے کہ عرب ممالک کو غزہ حملے پر بطور احتجاج اسرائیل سے تمام سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور دیگر رابطے منقطع کرلینے چاہئیں، جبکہ 91 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ ”بربادی اور جانی نقصانات کے باوجود غزہ کی جنگ فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کی فتح ہے۔“
معاملہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں۔ فلسطین کے مسیحی بھی اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں۔ تباہی اور بچوں کی اموات کی بنا پر اِس بار حضرت عیسیٰؑ کے مقام پیدائش بیت اللحم میں کرسمس کی تقریبات نہیں ہوئیں۔
( سلسلہ صفحہ ۷)
بیت اللحم کے تاریخی Lutheran church کی مرکزی عبادت گاہ میں اہلِ غزہ سے یکجہتی کے لیے علامتی ملبہ بچھادیا گیا۔ گزشتہ دنوں غزہ کے تاریخی ہولی فیملی گرجا گھر میں مسیحی عبادت گزار محترمہ ناہید خلیل اور اُن کی صاحب زادی ثمر کمال کو اسرائیلی نشانچیوں نے ہلاک کردیا۔ اس واقعے کو کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے دہشت گردی قرار دیا۔
آخر میں ایک اور معصوم موت کا ذکر۔ غزہ کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر منیرالبرش کو ایک عرصے سے اسرائیلی فوج دھمکی دے رہی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے مریضوں کو چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔ جمعہ 22 دسمبر کو ڈاکٹر صاحب کے گھر پر بمباری سے ان کی 13 سالہ حافظہ بیٹی جنان، جنت روانہ ہوگئی اور منیرالبرش شدید زخمی ہیں۔ دوسرے 8000 بچوں کی طرح اس معصوم حافظہ سے بھی یہ سوال یقیناً ہوگا کہ تُو کس جرم میں میں ماری گئی؟ معلوم نہیں اُس روز یہ معصوم اپنے خونِ ناحق کا خراج کس سے طلب کریں گے؟ اللہ نہ کرے ان کی ننھی انگلیاں خون بہا کے لیے سوا ارب مسلمانوں کی طرف اٹھ جائیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *