وہ سفر نہیں Sufferتھا…

[]

حمیدعادل

ایک وقت تھا جب سٹی بس کے اگلے دروازے سے محض خواتین سوار ہوا کرتی تھیں اور پچھلے دروازے سے مرد حضرات …یہ وہ دور تھا جب کوئی مرد اگلے ڈور سے بس میں سوار ہونے کی حماقت کرتا تو کنڈکٹر یا پھر ڈرائیور اس بری طرح سے اسے جھڑک دیتے کہ وہ دوبارہ بس کے اگلے دروازے سے داخل ہونا بھول جاتا… خواتین بھی صرف اور صرف سٹی بسوں کے ا گلے دروازے سے ہی بس میں سوار ہوا کرتی تھیں… حتیٰ کہ سٹی بسوں کے اگلے حصے میںخواتین کے لیے ’’ محفوظ زون‘‘ فراہم کرنے کی خاطر آہنی جالیوں کی ایک دیوار سی کھڑی کردی گئی تھی…لیکن جب دیوار برلن وقت اور حالات کی تھپڑیں برداشت نہ کرسکی تو بس کی آہنی دیوار کیا خاک تاب لاتی؟چنانچہ آج حالات یکسر بدل چکے ہیں ، بس کے پچھلے ڈور جہاں سے صرف اور صرف مرد حضرات سوار ہوا کرتے تھے،بیشتر خواتین ، مرد حضرات کے ہجوم کو چیرتی ہوئی بس میں سوار ہو کرمرد کے ’’ شانہ بہ شانہ چلنے ‘‘ کے کہے کو سچ کرتی نظر آتی ہیں …
جب سے خواتین کے لیے سرکاری بس کا سفر مفت ہوا ہے ،مردحضرات ٹکٹ خرید کر سفر کرنے کے باوجود ایسے ’’قیدی‘‘ بن کر رہ گئے ہیں کہ ’’اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں ‘‘ والی سزا بھگت رہے ہیں… صنف نازک کا مخصوص نشستوں کے علاوہ بس کی دیگر نشستوں پر بھی قبضہ ہوچکا ہے … ایسی ہی ایک خاتون نے مرد مسافرین کو اپنے ارد گرد کھڑا دیکھ کر، ان کے بنا کچھ کہے ہی کہنا شروع کردیا ’’کیا کرنا اب ، سیٹاں (نشستیں) نہیں ہیں تو یہاں بیٹھ گئے ۔‘‘ کنڈکٹر س بھی ’’ پاور آف ویمن ‘‘ کی بدولت بس میں رہ کر بھی بے بس نظر آرہے ہیں ، لیکن پچھلے دنوں ایک خاتون کنڈکٹر مردوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی دیپک بھردواج بن کر کھڑی ہوگئیں …انہوں نے خواتین سے مخاطب ہوکر بآواز بلند کہا ’’ خواتین اپنی مخصوص نشستوں پرہی بیٹھیں، یہاں وہا ںنہ بیٹھیں ۔‘‘ اس جادوئی جملے سے مرد حضرات( بشمول خاکسار)کی باچھیں ایسے کھل گئیں، گویا ان کے زخموں پرکسی نے مرہم رکھ دیا ہو… سارے کے سارے ’’ملے سر میرا تمہارا تو سر بنے ہمارا ‘‘ کی طرز پر چہک اٹھے ’’ ہاں ہاں ! ہم ٹکٹ لے کر بھی مصیبت جھیل رہے ہیں ۔‘‘ اس چھوٹے سے جملے میں چھپے بے پناہ درد کو صاف طورپر محسوس کیا جاسکتا ہے… اور یہ بھی پتا چلتاہے کہ مرد کو بھی درد ہوتا ہے … ’’ مرد کو درد نہیں ہوتا‘‘محض ایک فریب ہے۔
اضلاع سے شہرآنے والی مسافرین سے لدی بسوں کو دیکھ کرتو یوںمحسوس ہوتا ہے، جیسے کسی نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے …..مفت سفر سے فیض یاب ہونے کا جنون خواتین میں ایسا سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ ایک جانبازخاتون نے بس کی پشت پر لگی سیڑھی پر چڑھ کر سفر کرنا تک گوارا کرلیا، جب کہ مرد حضرات چھت پر پائے گئے … بس میں نشست کے حصول کی خاطر خواتین کاآپس میں لڑنا جھگڑنا خوب عام ہوا… ایک ایسے ہی وائرل ویڈیو میں ہم نے دیکھا کہ خواتین ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہیں اور اس لڑائی کو کسی نے شرارتی عنوان دے ڈالا ’’ ریونت ریڈی کی پہلی اسکیم کی بے مثال کامیابی‘‘
پچھلے دنوں کسی تقریب کے سلسلے میں چمن بیگ کے آبائی وطن جانے کا اتفاق ہوا…لگژری بس میں سفر کے مزے لوٹ کر ہم چمن کے ہاں پہنچ تو گئے لیکن واپسی بڑی ہنگامی حالات میں ہوئی … بس اسٹانڈ پہنچے تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ غیر مسلم خواتین کا سیلاب امڈ آیا ہے ،ہمیںپہلے تو گمان گزرا کہ شاید یہ بیچاریاںکسی جاترا کے لیے نکل پڑی ہیں…پھر پتا چلا کہ خواتین کایہ سارا ہجوم تو مفت سفر کے مزے لوٹنے کے لیے اکٹھا ہوا ہے،یعنی کانگریس حکومت نے خواتین کے لیے مفت سفر کا وعدہ وفا کردیا تھا …ہم تو کھڑے کھڑے ’’ چنتا منی‘‘ بن گئے ،ہمیں یہ چنتا اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی کہ Money دے کر بھی دھکے کھانے پڑیں گے …ہمیں یہ خوف ستانے لگا کہ ہم گھر پہنچتے پہنچتے کہیں اور نہ پہنچ جائیں …
پرسکون سفر کے لیے مشہور لگژری بس آتو رہی تھی لیکن دروازے بند تھے جبکہ ایکسپریس بسوں کے دروازے توکھلے تھے لیکن ہجوم ایسا تھا کہ بس کے اندر کوئی داخل ہونے کی جرات ہی نہیں کرسکتا تھا … ہمارے ساتھ پھول بانو کے علاوہ ، چمن بیگ بھی کھڑے تھے …حالات کی سنگینی کو تاڑکرہم نے ریزرویشن سے متعلق دریافت کیا تو پتا چلا کہ دوسرے دن صبح کے لیے دستیاب ہے لیکن چمن توہمیں جلد از جلد رخصت کرنے پر آمادہ تھے …بس اسٹانڈ پر حالات اس قدردھماکو تھے کہ بخیر و عافیت حیدرآباد پہنچنے کی ہم دعا ہی کرسکتے تھے، دفعتاًمعروف شاعر اختر شیروانی کا شعر ہمارے ذہن میں شور مچانے لگا:
مجھ کو یہ اعتراف دعاؤں میں ہے اثر
جائیں نہ عرش پر جو دعائیں تو کیا کریں
مشکوک حیدرآبادی بھی ہمارے ساتھ چلے تھے، لیکن بس اسٹانڈ پرخواتین کے جم غفیر کودیکھا تو ’’ تلوار چمکی یار فرار ‘‘ کے مصداق راہ فرار اختیارکرلی اور کار میں سوار ہوگئے … بس کا کرایہ ڈھائی سو روپئے تھا جب کہ کار ڈرائیور پانچ سو روپئے چارج کررہے تھے…مشکوک کم کرائے کے لیے منمنائے تو ڈرائیور نے تین سو روپئے لے کران کی گود میں ایک مسافر کو بٹھا دیا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ حیدرآباد پہنچے توالف سے ’’و‘‘بن چکے تھے اور تازہ اطلاعات کے مطابق وہ ’’ے‘‘کی پوزیشن میں بستر پر پڑے ہیں …
بے قابو حالات کو دیکھ کر ہم بس اسٹانڈ کے باہر جاکرکھڑا ہوگئے تاکہ مطلوبہ بس کوبس اسٹانڈ میں داخل ہونے سے قبل ہی لپک لیں …دریں اثنا ہم نے دیکھا کہ حیدرآباد جانے والی بس اٹھلاتی ہوئی چلی آرہی ہے ، ہم مسلسل بس میں سوار ہونے کے لیے دو گھنٹے سے جدوجہد کررہے تھے اور اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا چنانچہ دوسرے ہی لمحے دوڑ کر اس کی کھڑکی کے پاس پہنچ گئے اور دوڑتے دوڑتے ہم نے بس کے اندر کے حالات کا طائرانہ انداز میںجائزہ لیا تو پتا چلا کہ کچھ مسافر اترنے کی تیاری کررہے ہیں، ہم نے فوری جیب سے دستی نکالی اور نہایت مودبانہ انداز میں ان سے نشست پر اسے رکھنے کی گزارش کی ، جسے انہوں نے قبول کرلیا اور یہیں سے ہمارا اصل امتحان شروع ہوگیا… بس کو بس اسٹانڈ میں داخل ہوتا دیکھ کرانسانی سروں (جن میں بیشترزنانہ سر تھے) کاسمندر بس کی جانب بڑھ رہا تھا اور ہم اس سمندر میں گم ہوکر بس کے ساتھ ساتھ احمقوں کی طرح دوڑ ے جارہے تھے ، تاکہ دستی رکھی ہوئی نشست کو بچا سکیں … ہم بیک وقت بس کے ساتھ دوڑ بھی رہے تھے اور نشست کو محفوظ رکھنے کے لیے آوازیں بھی لگا رہے تھے ’’ دستی رکھی ہوئی نشست پر ہم ہیں ، دستی رکھی ہوئی نشست پر ہم ہیں‘‘ ایسا ہم اس لیے کہہ رہے تھے کیوں کہ چند سال قبل اسی طرح دستی رکھ کر جب ہم نے بس کے ساتھ دوڑتے دوڑتے ’’ یہ ہماری دستی ہے ، ‘‘ کا نعرہ لگایا تھاتو ایک منچلے مسافر نے ہماری دستی نشست سے اٹھا کر ہمارے منہ پر دے مار دی تھی …
ہم پھول بانو کے ساتھ کس طرح بس میں سوار ہوگئے ، یہ ہم بھی نہیں جانتے …بس اتنا یاد ہے کہ ہم نے خود کو آخری بار ڈور کے روبرو ہجوم میں غرق پایا تھا…ہجوم کے ریلے میں بہہ کر ہم کب بس میں داخل ہوگئے ، خود ہمیں بھی پتا نہ چلا…بس کے اندر دو بس کے مسافر پہلے ہی سوار ہوچکے تھے اور مزید دو بس کے مسافر اس بس میں سوار ہونے کے لیے بے چین تھے، تین لوگ بیٹھنے والی نشست پر پانچ مسافراور کہیں چھ مسافر جمے ہوئے بلکہ ٹکے ہوئے تھے اوربیشتر نشستوں پر خواتین کا قبضہ تھا… ہم اور پھول بانو بھی ایسی ہی ایک نشست کا حصہ بن گئے …بس میںنشست پاکر ہمیں ویسی ہی خوشی ہوئی ، جیسی خوشی کسی سیاست داں کو اسمبلی یا پارلیمنٹ کی نشست جیت کر ہوتی ہوگی …ہم نے بے ساختہ نشست کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ کر فلم ’’ ہنستے زخم‘‘کا معروف نغمے کا مکھڑا ’’ تم جو مل گئے ہو تو لگتا ہے کہ جہاں مل گیا ‘‘زیر لب گنگنا شروع کر دیا …
بس کے اندر حالات اس قدر ابتر تھے کہ کون کس کے پیروں پر کھڑا ہوا ہے اور کس کے دھڑ پر کس کا سر رکھا ہوا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا…ہمارے روبرو کی نشست پر بیٹھی ایک خاتون منظر سے اچانک غائب ہوگئی،ہم نے گھور کر دیکھا تو پتا چلا کہ اس خاتون کی گودی میںدو اور خواتین بیٹھی ہوئی ہیں …ہم نے حفظ ما تقدم کے تحت اگلی نشست پرلگے ہینڈل نما ڈنڈے کو مضبوطی سے تھام لیا تاکہ کسی بھی ناگہانی آفت سے محفوظ رہا جاسکے…کسی اسٹاپ پرایک خاتون بس سے اترتی تو چار سوار ہوجایا کرتی تھیں…جب بھی ڈرائیور بس کو بریک لگاتا ،بس کے اندرایک طوفان سے اٹھتااور ہر مسافر اپنے آپ سے پناہ مانگنے لگتا… ہم خواتین (جنہیں دیکھ کرپہلے پہل جاترا پر روانگی کا خیال آیا تھا) کے درمیان نشست کی نوک پر ٹکے ہوئے تھے، خاصی تکلیف میں تھے لیکن پھول بانو ہم سے بھی زیادہ تکلیف میں تھیں،وہ بار بار کہہ رہی تھیں ’’ان کو(خواتین کو) اپنے پاس سے ڈھکیلو، شرم نہیں ہے کیا؟‘‘دراصل انہیں ہمارے تکلیف دہ سفر سے زیادہ ہمارے ارد گرد موجودخواتین کے میلے سے تکلیف ہورہی تھی… اور ہمیں یہ ڈر تھا کہ اگر ہم خواتین سے دور ہٹنے کوبھی کہیں اور انہوں نے شور مچادیا کہ ہم انہیں چھیڑ رہے ہیں تو پھرہمارا کیا ہوگایا پھر خواتین نے طیش میں آکر ہمیںاٹھا دیا تو پھر ہمیںپانچ گھنٹوں کا سفر کھڑے کھڑے طے کرنا پڑے گا..
ہم خواتین کی غیر معمولی شجاعت کے دل سے قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکے جنہوں نے پانچ گھنٹے کھڑے ہوکر سفر طے کیا تھا …خدا خدا کرکے حیدرآباد پہنچے تو یہاں دوسراہی ہنگامہ تھا، گھر جانے کے لیے آٹو بک کیا تو ڈرائیور آنے سے قبل ہی فون کرکے ہم سے کہنے لگاکہ پچاس روپئے زائد دینے ہوں گے ، ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا ’’ بس میں مفت سفر کی رعایت سے ہمارا کاروبارشدید متاثر ہوا ہے صاحب،پچاس روپئے بڑھ کر دے رہے ہیں تومیں آتا ہوں … آٹو ڈرائیورس کی بھی مجبوریاں ہیں … آج تک وہ دگنا کرایہ طلب کرنے سے بھی باز نہیں آ رہے تھے لیکن آج حالات بدل چکے تھے …سنا ہے کہ ٹولی چوکی سے چارمینار سفر کے لیے جب آٹو ڈرائیور نے تین سوروپیوں طلب کیے توایک خاتون نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا ’’ ڈیڑھ سو میں چلتے تو چلو، نہیں تو ہمارے کو بس فری ہے ۔ ‘‘ لیکن ہمارے لیے زائد رقم دینے سے انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی ، کیوںکہ پھول بانو بری طرح تھک چکی تھیں اور پھول بانو سے زیادہ ہم تھک چکے تھے …دراصل ہمارا یہ سفر Safarنہیں Sufferتھا…
آرمور بس اسٹانڈ پرمرد حضرات نے ایک دلچسپ احتجاج کیا،وہ بس میںمردوں کے لیے پچاس فیصد ریزرویشن کی مانگ کررہے تھے… وہیںآج ایک دل دہلادینے والی خبر نظروں سے گزری کہ ایک بے بس مسافر نشست کے حصول میں ناکامی پر بس کے اگلے ٹائر کے آگے لیٹ گیا…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *