مایاوتی کوبطور وزیراعظم امیدوار پیش کرنے پر ہم انڈیا اتحاد میں شامل ہوں گے:ملوک ناگر

[]

لکھنو: اگر 2024ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی ایس پی کی صدر مایاوتی کو وزیراعظم امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا تو بہوجن سماج پارٹی‘انڈیا اتحاد میں شمولیت پر غورکرسکتی ہے۔

بجنور سے بی ایس پی ایم پی ملوک ناگر نے کہا کہ مایاوتی کو وزیراعظم امیدوار کے طور پر پیش کرنے پر انڈیا اتحاد‘ بی جے پی کو آئندہ لوک سبھا انتخابات میں متواتر تیسری مرتبہ کامیاب ہونے سے روک سکتا ہے۔ اتحاد کے لیے جیت کا فارمولہ واضح ہے۔ 2022ء کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 41.3فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔

انڈیا بلاک کی جماعتوں کو 40فیصد اور بی ایس پی کو تقریباً13فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اگر بی ایس پی اتحاد میں شامل ہوجاتی ہے تو ووٹ فیصد 50سے متجاوز ہوجائے گا جو بی جے پی سے اقتدار چھیننے کے لیے کافی ہے۔

مایاوتی کو وزیراعظم امیدوار کے طور پر پیش کرنے سے دلت رائے دہندے بھی لوٹ آئیں گے جنہیں زعفرانی بریگیڈ نے اپنا ہمنوا بنالیا۔“ بی ایس پی کی صدر مایاوتی کے قریبی مددگار ناگر نے کہا کہ مایاوتی ملک کی قد آور دلت قائد ہیں اور تمام ریاستوں میں انہیں حمایت حاصل ہے۔

تاہم ناگور نے یہ بھی کہا کہ کانگریس کو2018ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی ایس پی ارکا ن اسمبلی کواپنی طرف کھینچ لینے کے لیے معذرت خواہی کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ ناگر کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب چند دن قبل ہی یو پی کانگریس کے صدر اجئے رائے نے بی ایس پی کو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈیا میں شمولیت پر سنجیدگی سے غور کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

ناگر نے کہا کہ پھر مایاوتی نہ صرف کانگریس کو راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بی ایس پی ارکان اسمبلی کا شکارکرنے کے لیے معاف کردیں گی بلکہ انڈیا اتحاد کی پیشکش کے تئیں مثبت رویہ بھی اختیار کریں گی۔

واضح رہے کہ یو پی سی سی کے صدر اجئے رانے کہا تھا کہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات اور دلتوں کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی کو انڈیا اتحاد میں شمولیت کے تعلق سے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔“

قبل ازیں سماج وادی پارٹی کے صدر نے بی ایس پی کی انڈیا اتحاد میں شمولیت کی مخالفت کی تھی جس کے بعد مایاوتی نے اشارہ دیا تھا کہ مستقبل کے سیاسی اتحادوں کے لیے وہ دروازے کھلے رکھنے کی خواہاں ہیں۔“ انہوں نے گزشتہ ہفتہ کہا تھا کہ بی ایس پی سمیت اُن پارٹیوں کے خلاف کسی کا بھی غیر ضروری تبصرے کرنا مناسب نہیں جو اپوزیشن اتحاد کاحصہ نہیں ہیں۔“



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *