[]
حیدرآباد: دبئی سے سونے کی اسمگلنگ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ ان واقعات میں کئی معصوم افراد گرفتار بھی ہوئے ہیں اور کئی افراد چھوٹ بھی گئے ہیں۔ اسی طرح کا ایک دلسوز واقعہ پیش آیا۔
ایک نوجوان کے سامان سے سونے کا سرقہ کرلئے جانے پر گولڈ مافیا نے اس نوجوان کو دودن تک غیر قانونی طورپر حراست میں رکھا اور اُسے زدوکوب بھی کیا اور نوجوان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ باوثوق ذرائع کے بموجب کشن باغ کے رہنے والے محمد عابد جو شارجہ میں ملازم ہے، حیدرآباد آنا چاہتے تھے مگر اُن کے پاس ٹکٹ کیلئے پیسے نہیں تھے۔
عابد نے اپنے ایک دوست منہاج سے کہاکہ وہ انڈیا جانا چاہتے ہیں لیکن مبینہ طورپر میرے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں۔ منہاج نے عابد کو رشید نامی گولڈ اسمگل کرنے والے ایجنٹ سے ملایا اور کہاکہ رشید ٹکٹ کا بندوبست کردیں گے اور ان کا سامان ہے جسے (عابد) حیدرآباد تک پہنچادیناہے۔ اس بات پر عابد نے رضامندی ظاہر کی اور رشید نے 14 دسمبر کا ٹکٹ بک کروایا۔ عابد، رشید اورعاصم تینوں ملکر حیدرآباد ایرپورٹ پہنچ گئے۔
اس سے قبل رشید نے عابد کو جملہ 14 تولے سونا دیا، 2 لیاپ ٹاپ اور 3 آئی فونس بھی حوالے کئے۔ عابد نے ساڑھے 4 تولے کا سونا اپنے پتلون کے جیب میں رکھ لیا اور ساڑھے 9 تولے سونا 2 لیاپ ٹاپ اور 3 آئی فونس بیاگ میں رکھوالیئے تاہم وہ بیاگ کو جس میں سونا اور دیگر چیزیں رکھی تھیں، مقفل نہیں کیا گیا۔ تینوں ملکر دبئی ایرپورٹ سے انڈیگو ایرلائنس کے ذریعہ حیدرآباد پہنچے۔
ایرپورٹ پر سونا، بیاگ سے غائب تھا۔ سونا غائب ہونے پر رشید نے برہمی کا اظہار کیا۔ پھر سے بیاگ کی تلاشی لی تاہم ساڑھے 9 تولے سونا دستیاب نہ ہوسکا۔ رشید نے عابد کو لیکر چندرائن گٹہ چوراہا پر واقع پٹرول پمپ کی گلی میں بیرون ممالک کا سامان فروخت کرنے والے محمد کے پاس لے گیا جہاں غیر قانونی طورپر عابد سے پوچھ تاچھ کی گئی۔
اس دوران رشید نے عابد کو زدوکوب کیا اور عابد کا پاسپورٹ اور ویزا چھین لیا اس کے بعد عابد سے سونا یا پھر 6 لاکھ روپئے دینے کا مطالبہ کیابصورت دیگر اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ رشید اور اس کے ساتھیوں نے عابد کو ٹولی چوکی کی ایک ہوٹل لئے گئے جہاں بریانی کھلائی گئی۔
اس کے بعد پھر وہاں سے عابد کو الکا پور میں عمر نامی شخص کے فلیٹ پر لے جایاگیا جہاں رشید کا ایک دوست چاوش نے عابد سے سونا کہاں رکھا کہہ کر تھپڑ رسید کرتا گیا۔ عابد نے کہاکہ دبئی سے حیدرآباد ایرپورٹ تک میں ان کے ساتھ ہوں اور ایرپورٹ سے ابھی تک ان کی غیر قانونی تحویل میں ہوں مجھ سے کوئی ملنے نہیں آیا اور میں کہیں گیا بھی نہیں جو بھی آپ سب کے سامنے ہے۔
اس کے باوجود ان لوگوں نے عابد کی ایک نہ سنی۔ یہ افراد عابد سے سونا یا پھر 6 لاکھ روپئے ادا کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔ عابد پریشان ہوگیا۔ اس دوران عابد کے والد جو آٹو رکشہ چلاکر گزارا کرتے ہیں،کو طلب کیا گیا ان سے بھی وہ اسی طرح کا مطالبہ کرتے رہے۔ اس دوران عابد کو دودن تک عمر کے فلیٹ واقع الکاپور میں ہی قید میں رکھا گیا۔
عابد کسی طرح وہاں سے جان بچاکر اپنے رشتہ داروں کے پاس چلاگیا اور کشن باغ پہنچ کر اپنے والد کی مدد سے بہادرپورہ پولیس اسٹیشن میں اس ٹولی کے خلاف شکایت درج کروائی۔ ڈیوٹی آفیسر نے ان کی شکایت اور فون نمبر رجسٹر میں تحریر کرلیا۔ پولیس آفیسر نے اس ٹولی کو فون کیا اور دھمکیاں نہ دینے کی ہدایت دی۔
اس کے بعد ڈیوٹی پولیس آفیسر نے فون رکھ دیا جبکہ جان سے مارنے کی دھمکی دینے والی ٹولی کو پولیس نے فون پر سمجھادیا۔ کیا پولیس کارروائی اسے کہتے ہیں؟ کیا پولیس کی ذمہ داری اتنی ہی ہے؟ جبکہ کسی کا بھی پاسپورٹ چھین لینا بہت بڑا جرم ہے۔ کیا پولیس کا کام یہ نہیں ہے کہ عابد کا پاسپورٹ اسے دلوایاجائے؟ اور بیرون ملک سے غیر قانونی طورپر سونا لیاپ ٹاپ اور آئی فونس لانا درست ہے؟۔
اس سلسلہ میں متعلقہ ڈپٹی کمشنر پولیس کے علاوہ سٹی کمشنر پولیس کے سرینواس ریڈی سے شخصی طورپر مداخلت کرتے ہوئے رشید اور محمد جیسے سرغنوں کے خلاف فوری سخت کارروائی کرنی چاہئے۔ کمشنر ٹاسک فورس کے ذریعہ ان لوگوں کی گرفتاری عمل میں لائی جانی چاہئے اور سونے کی اسمگلنگ کو بند کروانا چاہئے۔
کمشنر پولیس نے خود کہاکہ قانون کے دائرہ میں کام کرنے والوں سے پولیس فرینڈلی کام کرے گی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا۔ کرناٹک ہائیکورٹ نے ایک ہفتہ قبل ہی یہ واضح کردیا کہ قرض باز یافت ٹریبونل سیول کریمنل کورٹس اور حتیٰ کہ پولیس کو ایک شہری کا پاسپورٹ ضبط کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
ایسے میں کسی بھی شہری کی جانب سے دوسروں کے پاسپورٹ کو اپنی تحویل میں لے لیا کیا یہ درست اقدام ہے؟۔ یقینا ایسا عمل ایک قابل گرفت جرم ہے۔اسمگلنگ کی وجہ سے ملک کا کروڑہا روپئے کا نقصان ہوتا ہے۔