اے پی میں کس سے اتحاد کیا جائے، کس سے نہیں، بی جے پی مخمصہ میں گرفتار

[]

نئی دہلی: ایک ایسی پارٹی جس نے آندھراپردیش میں گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ایک فیصد بھی ووٹ حاصل نہیں کئے‘2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل ریاست میں یہ پارٹی بی جے پی‘اپنے آپ کوبہتر مقام پر دیکھ رہی ہے۔

آندھراپردیش میں دونوں علاقائی جماعتیں‘ بی جے پی کواپنے ساتھ رکھنے کے لئے ایک دوسرے پرسبقت لیجانے کی کوشش کررہی ہیں۔جہاں تلگودیشم پارٹی‘بی جے پی سے انتخابی مفاہمت کرناچاہتی ہے وہیں ریاست کی حکمراں جماعت وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی خواہش ہے کہ 2019 کے انتخابات کی طرح آئندہ سال کے عام الیکشن میں بھی بھگواجماعت تنہامقابلہ کرے۔

دونوں علاقائی جماعتوں کے ذرائع نے یہ بات بتائی۔ ریاست کی اقلیتوں مسلم اورعیسائیوں کے ووٹوں پر بنیادی طورپر حکمراں جماعت وائی ایس آر سی پی کی مضبوط گرفت دیکھی جارہی ہے۔

حکمراں جماعت کے قائدین کانظریہ ہے کہ پارٹی کے لئے بی جے پی سے مفاہمت کرنا مناسب نہیں رہے گا لیکن ان کا کہناہے کہ وائی ایس آر سی پی پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے ایجنڈہ کی غیر مشروط تائید کرتے ہوئے مرکز کی حمایت کرچکی ہے۔

وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے ایک قائد کا کہناہے کہ بی جے پی کے اس کے انتخابی حلیفوں کے ساتھ اختلافات ہوسکتے ہیں مگر ہمارے ساتھ بی جے پی کے تعلقات ہمیشہ سے اچھے رہے۔ ہمارے قائدچیف منسٹر جگن موہن ریڈی نے اقتدار میں حصہ داری نہ رہنے کے باوجود مرکزی حکومت کی حمایت کی ہے۔

بھگوا جماعت بی جے پی اپنے تمام آپشنز پرغور کررہی ہے۔ بی جے پی کے ریاستی قائدین‘سابق چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو کی زیر قیادت ٹی ڈی پی کے ساتھ انتخابی مفاہمت کے خواہش مندہیں ان کا ماننا ہے کہ یہی ایک راستہ ہے جس سے ریاست میں چندنشستیں جیتی جاسکتی ہیں اورکیڈر کو متحرک کیاجاسکتاہے۔

آندھراپردیش میں آئندہ سال اسمبلی کے ساتھ لوک سبھا انتخابات منعقدہونے والے ہیں۔تلگودیشم پارٹی کے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جگن موہن ریڈی کی حکمرانی اوران کی قیادت کا انداز بی آر ایس قائدکے چندرشیکھرراؤ کی قیادت سے مماثلت رکھتا ہے۔

گزشتہ ماہ منعقدہ اسمبلی انتخابات میں بی آرایس کوکانگریس کے ہاتھوں شکست اٹھاناپڑاتھا۔ بی جے پی ذرائع نے بتایا کہ پارٹی‘کس سے اتحاد کرے یا کس سے نہ کرے‘اس بارے میں مخمصہ میں گرفتار ہے۔

اگر وائی ایس آر کانگریس پارٹی الیکشن جیت جاتی ہے توٹی ڈی پی کے ساتھ اس کی مفاہمت کے برعکس نتائج سامنے آئیں گے۔ جگن کے بی جے پی کے ساتھ خوشگوارتعلقات رہے ہیں جبکہ نائیڈوکے بی جے پی کے چند قائدین کے ساتھ تعلقات تلخ رہ چکے ہیں۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *