[]
حیدرآباد: یہ مشاہدہ رہا ہے کہ جب کبھی کسی پارٹی کو اپنی کمزوری کا احساس ہونے لگتا ہے تو وہ اقلیتوں کی طرف التفات کرتی ہیں تاکہ وہ ان کے سہارے اپنی گرتی ساکھ کو بچاسکے۔ ایسا ہی کچھ بھارت راشٹرا سمیتی کے ساتھ بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اقتدار حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کوفراموش کردینے والی بھارت راشٹرا سمیتی کو بھی اب وہ پھرسے یاد آنے لگے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں مسلمانوں کی تائید سے محرومی کے احساس نے 8 برس بعد پارٹی قیادت کو اپنی ہی پارٹی کے مسلم کارکنوں کی یاد آئی ہے اور جل وہار میں پارٹی کے مسلم قائدین کا ایک اجلاس جمعرات کو طلب کیا گیا ہے۔
جس میں پارٹی کارکنوں سے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی و پارٹی کے کارگزار صدر کے ٹی راما راؤ‘ وزیر فینانس ٹی ہریش راؤ اور وزیر داخلہ محمد محمود علی تبادلہئ خیال کریں گے اور انہیں آئندہ انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دیں گے۔
پارٹی کے مسلم قائدین کا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ تو کرلیا گیا ہے مگر یہ اجلاس پارٹی کی تنظیم کی جانب سے نہیں کیا جارہا ہے بلکہ پارٹی کے ایک سینئر قائد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ مسلم قائدین کو 20 /جولائی کو کھانے پر مدعو کریں۔’اندھا بانٹے ریوڑیاں‘ اپنے اپنوں کو‘ کے مصداق اس قائد نے تادم تحریرصرف اپنے حاشیہ کے لوگوں کو ہی مدعو کیا ہے۔
مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے چند سینئر قائدین سے جب اس اجلاس سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے اجلاس کے انعقاد سے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کیا جب کہ ایک ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر قائد نے صرف حاشیہ برداروں کو ہی مدعو کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں وزیر داخلہ کے پی اے نے اس خصوص میں فون کیا تھا۔ اس طرح مدعو کئے جانے کو وہ اپنی تحقیر محسوس کرتے ہیں اور اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
ایک اور قائد نے بتایا کہ ان جیسے قائدین کو اس طرح کے اجلاسوں میں اس لئے مدعو نہیں کیا جاتا کہ وہ پارٹی قائدین کی جھوٹی تعریفیں کرنے کی بجائے اپنی برادری کو درپیش حقیقی مسائل اور حکومت کی ناکامیوں پر کھل کر اظہار کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ تقریباً 8 برس قبل دسہرہ کے موقع پر چیف منسٹر و پارٹی سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے پارٹی کے اقلیتی قائدین کو خصوصی طور پر مدعو کرتے ہوئے ان کے ساتھ تبادلہئ خیال کیا تھا جس کے بعد پھر کبھی پارٹی کے کسی بڑے قائد نے مسلم کارکنوں کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔ بی آر ایس میں دوسرے درجہ کے مسلم قائدین کو یہ شکایت ہے کہ قیادت نے انہیں یکسر نظرانداز کردیا۔
پارٹی کے استحکام کے لئے جو قائدین کام کرتے رہے انہیں نامزد عہدوں کے الاٹمنٹ کے وقت نظرانداز کردیا گیا‘ یہی نہیں بلکہ تنظیمی سطح پر بھی ان کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ انہیں یہ شکایت ہے کہ ریاستی سطح پر پارٹی کا اقلیتی سیل کارکرد نہیں ہے جب کہ ایک دو اضلاع کو چھوڑ کر کہیں پر بھی ضلعی سطح پر اقلیتی سیل کو تشکیل نہیں دیا گیا ہے۔
کرناٹک میں کانگریس پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد جہاں تلنگانہ میں کانگریس پارٹی کو ایک نیا حوصلہ ملا ہے وہیں مسلمان برسراقتدار پارٹی کی مسلسل بے التفاتی سے عاجز آکر کانگریس پارٹی کی طرف رضاکارانہ طور پر راغب ہونے لگے ہیں۔
پارٹی قیادت کی بے اعتنائی سے مایوس بیشتر مسلم قائدین نے یا تو سرگرم سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے یا پھر وہ کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ بی آر ایس قیادت کو شائد اس کا اندازہ ہوگیا ہے اس لئے پارٹی کارکنوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے سے باز رکھنے کے لئے ان کے لئے ایک اجلاس طلب کیا گیا تاکہ انہیں کسی طرح قائل کروایا جاسکے کہ پارٹی کو ان کا بہت خیال ہے اور جن کے ساتھ اب تک ناانصافی ہوئی ہے وہ مایوس نہ چونکہ ان کے لئے پارٹی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔