اسرائیل کو مزاحمت کی شرائط تسلیم کرنا ہوں گی/ خطے میں جنگ پھیلنے کا امکان ہے

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ پچھلے دو ماہ سے صہیونی دشمن کی طرف سے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے بہیمانہ قتل عام کے باوجود غزہ کے شہریوں نے مزاحمت کی ہے اور ہمت نہیں ہاری ہے۔

غزہ کے دلاوروں کے علاوہ یمن کے سرفروشوں نے صیہونی معیشت پر کاری ضربیں لگائیں اور اس دوران امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے والی عراقی مزاحمت کے جوان بھی اس جنگ میں حصہ لےچکے ہیں جب کہ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ میں لبنانی مزاحمت نے تباہ کن آپریشنز کے ذریعے دشمن کو آدھ موا کر دیا یے۔ 

آج ہمیں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس فرمان سے بھرپور راہنمائی مل جاتی ہے کہ: آخری زمانے میں لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے، اہل ایمان جو نفاق سے پاک ہوں گے اور اہل نفاق جو ایمان کی دولت سے محروم ہوں گے۔

آج غزہ کی جنگ نے یہ حقیقت برملا کر دی، ہم سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور آج حق کے راستے کا انتخاب واضح ہو گیا ہے۔آج اہل ایمان فلسطینیوں کی مدد کر رہے ہیں جب کہ اہل نفاق باطل (صیہونی رجیم) کے ساتھ ہیں یا پھر خاموش تماشائی۔

غزہ کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے مہر خبررساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس جنگ کا نتیجہ جہاں مزاحمت کی فتح کی صورت میں نکلے گا وہاں یہ اسرائیلی دشمن کے لئے رسوا کن شکست ہوگی۔

انہوں نے صہیونی دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کے دائرہ کار میں توسیع کے امکان کے بارے میں مزید کہا: “یہ امکان باقی ہے، لیکن ہم اس توسیع کا باعث بننے والے حالات اور وقت کا تعین نہیں کر سکتے۔

غزہ جنگ کی مزید تفصیلات، متوقع نتائج اور علاقائی سطح پر توسیع کے امکانات کے بارے میں جاننے کے لیے مہر نیوز ایجنسی کی نامہ نگار محترمہ وردہ سعد نے حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل، محترم شیخ نعیم قاسم کا انٹرویو کیا ہے جس کا متن درج ذیل ہے:

مہر نیوز؛ اگر موجودہ سال کے آغاز کے بعد بھی صیہونی دشمن کے لیے امریکہ کی آشیر باد حاصل رہتی ہے تو مزاحمت کی جنگی صلاحیت اور محاذ آرائی کی قوت اور جنگ کے دائرے کو بڑھانے کے امکانات پر اس کے اثرات کیا ہوں گے ؟

شیخ نعیم قاسم؛ غزہ جنگ کے میدان میں مزاحمت کے دندان شکن جواب نے اسرائیلی دشمن کو الجھایا اور بہت سے لوگوں کو ہلاک اور زخمی کیا۔

امریکی اسرائیلی جارحیت کے آغاز کو 70 دن گزر جانے کے بعد یہ بات واضح ہے کہ مزاحمت کے پاس جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت اور قوت ارادی موجود ہے۔ جیسا کہ مختلف جگہوں پر پھیل کر گوریلا وار کرنے کی صلاحیت کہ جہاں اسرائیلی فوج موجود ہو جس کی ویڈیوز حماس یا اسلامی جہاد تحریک کے عسکری میڈیا کے ذریعے موصول ہورہی ہیں یہ اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ مزاحمتی محاذ اسرائیلی دشمن کے خلاف جنگ کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے، اس لیے فتح تک مزاحمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن کیا یہ محاذ آرائی اور تسلسل علاقائی سطح پر توسیع کا باعث بنے گا؟ اس کا امکان تو ہے لیکن ہم اس توسیع کا باعث بننے والے وقت یا حالات کی پیشگی نشاندہی نہیں کر سکتے۔

مہر نیوز؛ قرارداد 1701 کے بارے میں تازہ ترین گفتگو اور صیہونی دشمن کی حزب اللہ کو سرحدی علاقے سے طاقت کے ذریعے ہٹانے کی دھمکی کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

شیخ نعیم قاسم؛ قرداد 1701 کے فیصلے کے بارے میں اب کسی گفتگو کا وقت نہیں ہے، اس وقت جنوب میں اسرائیلی دشمن کے ساتھ محاذ آرائی اور اس کے ارادوں اور توسیع پسندی کے خلاف بات کی جانی چاہئے۔

 آج جنوبی محاذ میں مزاحمت کا وقت ہے، اب غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے سے متعلق بات ہوگی۔ جہاں تک لبنان کے اندر اشتعال انگیزی کی بات کی جائے تو یہ غیر حقیقی ہے، کیونکہ الحمد للہ لبنان کی صورت حال نارمل اور قابو میں ہے۔

 اگر بعض صورتوں میں حالات موافق نہیں ہیں،تو اس کی وجہ داخلی دشمنوں کی موجودگی ہے اور ہم اس صورت حال کو سر اٹھانے نہیں دیں گے کہ جس سے اسرائیلی منصوبے کی تکمیل ہوجائے، کیونکہ یہ موجودہ حالات میں ایک نان ایشو ہے۔

مہر نیوز؛ موجودہ کشیدگی کے مستقبل کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ قابض فوج کو اپنے اہداف کے حصول میں شکست اس کی اندرونی صورتحال پر کیسے اثرانداز ہو گی؟

شیخ نعیم قاسم؛ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا نتیجہ مزاحمت اور فلسطینی گروہوں کی فتح کی صورت میں نکلے گا اور اسرائیلی دشمن برطرح شکست کھائے گا، اسے حماس اور مزاحمت کی شرائط کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہوگا اور جنگ ختم ہونے کے بعد اس وحشت ناک جارحیت کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔

مہر نیوز؛ جنوب میں جاری کشیدگی اور جھڑپوں کی روشنی میں لبنان کی اندرونی صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا اندازہ ہے؟ کیا صدر کے انتخاب کے ساتھ آنے والے ہفتوں میں داخلی صورت حال میں پیش رفت کی توقع کی جا سکتی ہے؟

شیخ نعیم قاسم؛ ہمیں امید نہیں ہے کہ لبنان میں صدارتی استحقاق پورا ہو جائے گا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ فریقین اپنے اپنے تنازعات پر قائم رہتے ہوئے غزہ اور جنوبی لبنان میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے موجودہ حالات میں ایک پیج پر آسکیں۔

لہذا لبنان کے اندر سیاسی قوتوں کے سیاسی انتخاب پر جنوبی محاذ میں کشیدگی کا منفی اثرات نظر نہیں آتا لیکن بدقسمتی سے گہری سیاسی تقسیم، لبنانی پارلیمنٹ کے اندر صدارتی استحقاق کے حصول میں تاخیر پر اثر انداز ہوتی ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *