[]
مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے خبر دی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنی (Maersk) کی جانب سے آبنائے باب المندب، نہر سویز اور بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کی آمدورفت معطل کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی صیہونی ماہرین نے صیہونی حکومت پر معاشی اخراجات میں اضافے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق عبرانی اخبار اسرائیل الیوم کے معیشت دان “ہائلی ہینڈلزمین” نے اس حوالے سے لکھا: دیگر کمپنیوں کی جانب سے اسی طرح کے اقدامات کو اپنانے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
اس حوالے سے عبرانی ویب سائٹ والا کے ڈائریکٹر یارون بین ایلی نے کہا: ہمارے معاشی خدشات کا تعلق آج اور کل سے نہیں ہے بلکہ اسرائیل میں گزشتہ 2 ماہ کے دوران اس احساس میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ صرف سمندری نقل و حمل سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہم اسرائیل میں ہوائی پروازوں میں کمی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ عمل بالآخر آن لائن شاپنگ کو سست کر دے گا اور امریکہ اور چین میں صارفین کو چار گنا تک نقصان پہنچے گا۔
یارون نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہم نے چین سے سامان کا آرڈر وصول کیق لیکن ایک ماہ گزرنے کے باوجود سامان نہیں بھیجا گیا۔ امریکہ کے بارے میں، مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ اسرائیل کے لیے تقریباً کوئی پروازیں نہیں ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ بحران سمندری نقل و حمل تک بھی پھیلا ہوا ہے اور بلاشبہ قیمتوں میں اضافے اور گوداموں کے خالی ہونے کا باعث بنے گا، کیونکہ جب بڑی سطح کی کوئی کمپنی ایسا فیصلہ کرے گی تو دوسری کمپنیاں بھی اسی طرح کے اقدامات کریں گی۔
مذکورہ صہیونی تاجر نے مزید کہا کہ ہم توانائی بردار جہازوں اور خام مال کی قیمتوں میں اضافہ دیکھیں گے کیونکہ یہ جہاز زیادہ تر خام مال اور کاریں اسرائیل لے جاتے تھے۔ 2024 اس طرح کے کئی اور خطرناک مسائل کے ساتھ شروع ہوگا۔
کمپنی کے جنرل مینیجر (گڈ فارم) ایڈم فریڈلر نے اس حوالے سے کہا: میرسک کا یہ اقدام بہت موثر ہو سکتا ہے اور بالآخر سمندری مال برداری کی قیمت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ بین الاقوامی شپنگ کمپنی میرسک نے گذشتہ روز اعلان کیا کہ اس نے بحیرہ احمر کے راستے سے اپنی سمندری آمدورفت روک دی ہے۔
مارسک کی جانب سے یہ فیصلہ اس ہفتے آبنائے باب المندب سے گزرتے ہوئے جبرالٹر کے مارسک کنٹینر جہاز پر یمنی فوج کے حملے کے بعد کیا گیا ہے۔
یمنی فوج نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے جہاز کو میزائلوں سے براہ راست حملہ کرنے سے پہلے خبردار کر دیا تھا۔
بحیرہ احمر میں مارسک کی معطلی سے 70% سے زیادہ کنٹینر بحری جہازوں کے گزرنے پر اثر پڑے گا اور یہ واضح نہیں ہے کہ بحیرہ احمر میں مرکزی جہاز رانی کا راستہ کب اپنی معمول کی سرگرمی پر واپس آئے گا۔
اس سے قبل یمن نے اعلان کیا تھا کہ وہ مقبوضہ فلسطین جانے والے تمام بحری جہازوں اور آئل ٹینکروں کو نشانہ بنائے گا حالانکہ یمنی فوج نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ دوسرے بحری راستوں پر چلنے والے جہازوں کے ساتھ دوسرے راستوں کو نہیں روکیں گے اور ان کے سمندری روٹ آزاد ہے۔
کچھ عرصہ قبل صہیونی بحریہ کے سابق کمانڈر “ایلیزر میروم” نے اعتراف کیا تھا کہ یمن اس حکومت پر بحری ناکہ بندی مسلط کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ میرم نے صیہونی حکومت کی طرف سے سمندری راستے سے تجارت کی جانے والی بڑی مقدار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل کا 95 فیصد ملکی اور غیر ملکی سامان سمندر سے گزرتا ہے۔