قابض اسرائیل کو اپنے دفاع کا کوئی حق نہیں، اردنی ماہر قانون

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ قطر کے چینل الجزیرہ کی طرف سے ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والی پانچ روزہ “میڈیا اور جنگ” کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ خطے کے مختلف ممالک اور ذرائع ابلاغ کے اداروں سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد صحافی اور تجزیہ کار اس میں شرکت کررہے ہیں۔

مختلف موضوعات کے بارے میں ہونے والی سلسلہ وار نشستوں میں سوال و جواب کا بھی سیشن رکھا گیا ہے جس میں مہر نیوز کے نمائندے بھی شریک ہیں۔

یہ نشستیں ورکشاپ کی صورت میں منعقد ہورہی ہیں۔ پہلے اور دوسرے دن کی نشستوں میں اردن سے تعلق رکھنے والی ممتاز خاتون ماہر قانون ھالہ عاھد نے جنگی جرائم، نسل کشی، قتل عام اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان پیروی کے بارے میں گفتگو کی۔

استنبول کے الشرق ثقافتی مرکز میں ہونے والی اس کانفرنس کے پہلے دن کا موضوع “صحافی اور بین الاقوامی انسان دوست قوانین، جنگی جرائم کی مستندسازی” تھا۔

ہالہ عاہد نے موضوع کے بارے میں شرکاء کو بہترین مطالب پیش کئے جو جنگی جرائم اور نسل کشی سے متعلق تھے۔

قابض اسرائیل کو اپنے دفاع کا کوئی حق نہیں، اردنی ماہر قانون

انہوں نے مستندسازی اور رپورٹنگ کو بین الاقوامی انسان دوست قوانین کے عناصر میں سے قرار دیا اور تاکید کی کہ بین الاقوامی قوانین کو جاری کرنے میں ملکوں اور حکومتوں کا کردار بہت اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ممالک اور حکومتیں ان فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو بین الاقوامی انسان دوست قوانین کا سہارا لینا پڑے گا تاکہ قتل عام اور جرائم کا راستہ روکا جائے۔

انہوں نے صہیونی حکومت کی جانب سے اپنے دفاع کے حق کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی منشور کی شق51 کے مطابق اسرائیل کو اپنے دفاع کا کوئی حق نہیں ہے کیوںکہ کسی بھی ملک کو اس حق سے استفادہ کرنے کے لئے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے۔

انہوں نے ان دونوں شرائط کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ]پہلی شرط یہ ہے کہ حملہ کسی بیرونی ملک کی طرف سے ہونا چاہئے جبکہ اسرائیل پر حملہ بیرونی ملک نے نہیں کیا بلکہ اس نے خود دوسرے کی زمین پر قبضہ کررکھا ہے لہذا اس کو قبضہ ختم کرنا پڑے گا۔

قابض اسرائیل کو اپنے دفاع کا کوئی حق نہیں، اردنی ماہر قانون

انہوں نے کہا کہ دوسری شرط یہ ہے کہ جس ملک پر حملہ کیا گیا ہے وہ اقوام متحدہ سے اپنے دفاع کی اجازت حاصل کرے۔

ہالہ عاہد نے کہا کہ جنگی جرائم میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، نسل کشی اور قتل عام جیسے واقعات شامل ہوتے ہیں۔ غزہ میں صہیونی حکومت نے پوری ایک قوم اور دین کے پیروکاروں کو ختم کرنے کی کوشش شروع کررکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنگی جرائم کا ثابت ہونا نہایت مشکل امور میں سے ہے کیونکہ اس کو ثابت کرنے کے لئے جرائم کا ارتکاب کرنے والے کی نیت سے آگاہ ہونا شرط ہے اور ثبوتوں کو بھی بین الاقوامی اداروں کی تائید حاصل ہونا چاہئے۔

انہوں نے نسل کشی کو تمام جرائم کی ماں قرار دیا اور کہا کہ جنایت کرنے والے کے ساتھ اس کی حمایت کرنے والے اور ممکن ہونے کے باوجود اس کا راستہ نہ روکنے والے سب شریک ہیں۔ اسی لئے غزہ میں نسل کشی کے حوالے سے جوبائیڈن، بلینکن اور لوئیڈآسٹن کے نام بھی لئے جارہے ہیں۔

قابض اسرائیل کو اپنے دفاع کا کوئی حق نہیں، اردنی ماہر قانون

ہالہ عاہد نے کہا کہ غزہ کے اطراف میں صہیونی بستیاں بھی جنگی جرائم میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ آبادکاری کے ضمن میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو بے گھر کردیا ہے۔

انہوں نے جنگی مستند سازی کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکومت کے جنگی جرائم سے پردہ اٹھانے کے لئے مستند سازی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے صحافیوں کو اجازت دی ہے کہ اپنی شناخت کو مخفی رکھتے ہوئے عدالت میں گواہ کے طور پر حاضر ہوسکتے ہیں۔ 

ہالہ عاہد نے کہا کہ جنگی جرائم کی مستند سازی بہت اہم ہے کیونکہ اس طرح منظم طریقے سے ہونے والے جنگی جرائم سے پردہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *