[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ کے روز بسیجیوں سے ملاقات کے دوران طوفان الاقصی آپریشن اور اس کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ اللہ کی توفیق سے مسئلہ فلسطین حل ہونے کی طرف گامزن ہے۔ مسئلہ فلسطین حل ہونے کا کیا مطلب؟ یعنی پورے فلسطین پر فلسطینی حکومت کی تشکیل۔ ہم نے اپنا منصوبہ پیش کیا ہے جوکہ فسلطینیوں کی عمومی رائے لینا ہے۔
اس سے پہلے انہوں نے اسرائیل کی نابودی پر مبنی اسلامی جمہوری ایران کی سرکاری پالیسی پر تاکید کرتے ہوئے عمومی ریفرنڈم کو اس مسئلے کے عملی طور پر حل کا طریقہ کار سمجھا تھا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے بیانات کی روشنی میں KHAMENEI.IR ویب سائٹ نے صہیونی جعلی اور ناجائز حکومت کے خاتمے کے بارے میں رہبر انقلاب کے موقف اور فلسطینی حاکمیت کے تعین کے لئے عسکری مسلح مزاحمت کی حکمت عملی اور جمہوری ریفرنڈم کے باہمی تعلق کے بارے میں تحقیق اور وضاحت پیش کی ہے۔
اسرائيل ختم ہونا چاہیے
غاصب اور غیر قانونی صیہونی حکومت کے ذریعے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے سلسلے میں اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم کا موقف، ایک دم واضح اور شفاف ہے: “موقف وہی ہے جو رہبر کبیر امام خمینی نے فرمایا ہے: اسرائيل ختم ہونا چاہیے۔” (4/2/1990)
اور یہ اسلامی جمہوریہ کا واضح ہدف ہے جس کا اعلان امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور آيت اللہ العظمی خامنہ ای کی جانب سے کیا گيا ہے: “فلسطین کے مسئلے میں، نصب العین فلسطین کی آزادی ہے، یعنی اسرائيلی حکومت کا خاتمہ۔(4/2/1990)
بنابریں اس معاملے میں اسلامی جمہوریہ کی پالیسی ایک دم صاف ہے: “فلسطین کے مسائل کے بارے میں ہمارا نظریہ واضح اور شفاف ہے۔ ہم اسرائيلی حکومت کی نابودی کو فلسطین کی راہ حل سمجھتے ہیں۔” (19/8/1991)
البتہ “اسرائيل کا خاتمہ” اور بچوں کی قاتل اس نسل پرست حکومت کا خاتمہ، یہودی دشمن پالیسی نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا باضابطہ موقف، غاصب صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضے سے متعلق ہے: “غاصب حکومت کے معاملے میں جمال عبدالناصر کا نعرہ تھا کہ ہم یہودیوں کو دریا برد کر دیں گے … اسلامی جمہوریہ نے پہلے دن سے تا حال اس طرح کی کوئي بات نہیں کی ہے۔” (10/6/2018) “اسلامی جمہوریہ کا موقف، کسی کو سمندر میں ڈبونے کا نہیں ہے۔” (29/11/2023)
مسئلۂ فلسطین کا حل
اسلامی نظام نے مسئلہ فلسطین کے حل اور خطے میں دہشت گردی اور بدامنی کی جڑ جعلی صیہونی حکومت کے خاتمے کے لیے دنیا والوں کے سامنے ایک واضح اور جمہوری راہ حل پیش کی ہے: “معقول راہ حل، وہ راہ ہے جسے دنیا کے تمام بیدار ضمیر انسان اور دنیا کی آج کی اقدار پر یقین رکھنے والے سبھی لوگ تسلیم کرتے ہیں اور اسے ماننے پر مجبور ہیں … راہ حل، خود فلسطین کے عوام کی رائے معلوم کرنا ہے، ان تمام لوگوں کی، جو فلسطین سے بے گھر ہو گئے، البتہ وہ لوگ جو سرزمین فلسطین اور اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں اور ان تمام لوگوں کی رائے معلوم کی جائے ، جو سنہ 1948 سے پہلے، جو اسرائيل کی جعلی حکومت کی تشکیل کا سال ہے، فلسطین میں رہتے تھے، چاہے وہ مسلمان ہوں، چاہے عیسائی ہوں، چاہے یہودی ہوں۔ یہ لوگ ایک ریفرنڈم میں یہ طے کریں کہ سرزمین فلسطین پر کون سی حکومت ہو۔ یہ جمہوریت ہے … وہ حکومت تشکیل پائے اور وہی ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرے جو سنہ 1948 کے بعد سرزمین فلسطین میں آئے ہیں۔” (5/4/2002)
اسلامی جمہوریہ، اسرائیل کے خاتمے کی جو بات کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے یعنی عمومی استصواب رائے کے ذریعے غیر قانونی اور جعلی حکومت کا خاتمہ: “یہ وہی اس باطل اور جعلی صیہونی حکومت کی نابودی اور خاتمہ ہے جو آج بر سر اقتدار ہے۔ (15/6/2018)
درحقیقت “صیہونی حکومت کے خاتمے کا مطلب ہرگز اس خطے کے یہودیوں کا قتل عام نہیں ہے … یعنی ریفرنڈم کرایا جائے، اس خطے میں کون سی حکومت آئے گي، یہ ریفرنڈم طے کرے گا، لوگ طے کریں گے، صیہونی حکومت کے خاتمے کا مطلب یہ ہے، طریقہ یہ ہے۔” (23/7/2014)
البتہ یہاں ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ “اسرائيل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ طاقت کی زبان کے علاوہ کوئي اور زبان نہیں سمجھتا۔ اس سے ایک قوم کی طاقت اور پوری دنیا میں ایک امت مسلمہ کی طاقت کی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں بات نہیں کی جا سکتی۔”(19/10/1991)
اس لیے: “فلسطینی قوم کی ہمہ گير جدوجہد، سیاسی جدوجہد، عسکری جدوجہد، اخلاقی و ثقافتی جدوجہد، جاری رہنی چاہیے تاکہ، فلسطین کو غصب کرنے والے، فلسطینی قوم کی رائے کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو جائيں … تب تک جدوجہد جاری رہنی چاہیے اور جاری رہے گي۔”(5/6/2019)
اس سلسلے میں غاصبوں کے خلاف مسلحانہ جدوجہد اور استقامت کی اسٹریٹیجی، مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے جمہوری راہ حل کے عملی جامہ پہننے کی راہ ہموار کر رہی ہے: “جب تک یہ جعلی حکومت باقی ہے اور ختم نہیں ہوئي ہے، چارہ کیا ہے: چارہ، اس حکومت کے خلاف مضبوط مسلحانہ استقامت ہے، صیہونی حکومت کے مقابلے میں، فلسطینیوں کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔” (23/7/2014) اصل میں چونکہ اسرائيل جمہوری راہ حل کو تسلیم نہیں کرتا اس لیے “یہ عزم و ارادہ اس پر مسلط کر دیا جانا چاہیے اور اگر اس پلان کو آگے بڑھایا گيا، جو کہ ان شاء اللہ بڑھایا جائے گا اور اگر استقامت کی اکائيوں نے پوری سنجیدگي کے ساتھ اپنے عزم و ارادے پر کام کیا تو یہ ہدف حاصل ہو جائے گا۔” (29/11/2023)
طوفان الاقصیٰ رکنے والا نہیں ہے
یہاں ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی مزاحمت کی روز افزوں طاقت کے سبب آج خطے میں طاقت کا توازن اقوام کے حق میں اور غاصبوں اور صیہونیوں کے خلاف سمت میں جھکتا جا رہا ہے۔ طوفان الاقصیٰ نے اسرائیل کو ناقابل تلافی چوٹ اور ہمہ گیر شکست سے دوچار کر دیا ہے اور وہ خطے کو ‘امریکیت’ سے پاک کرنے کا سبب بنا ہے: “خطے سے امریکا کو دور کرنے کی ایک صاف اور واضح نشانی، طوفان الاقصیٰ کا تاریخ رقم کرنے والا واقعہ ہے، جو اگرچہ صیہونی حکومت کے خلاف تھا لیکن در اصل امریکی رسوخ کو مٹانے کی سمت میں ہے کیونکہ اس نے علاقے سے متعلق امریکی منصوبوں کو درہم برہم کر دیا ہے اور اگر یہ طوفان جاری رہا تو خطے سے متعلق امریکی منصوبے پوری طرح نابود ہو جائيں گے۔ (29/11/2023)
علاقائي تبدیلیوں کے ان حالات میں اس تاریخی مسئلے کا حل، فلسطینی قوم کے حق میں اور جعلی و غیر قانونی حکومت کی نابودی ہے: “طوفان الاقصیٰ رکنے والا نہیں ہے۔” (29/11/2023)
اور “فلسطین کا مسئلہ خداوند عالم کی توفیق سے حل کی جانب یعنی پوری سرزمین فلسطین میں، فلسطینیوں کی حکومت کی تشکیل کی جانب بڑھ رہا ہے۔” (29/11/2023)