[]
مہر خبررساں ایجنسی_سیاسی ڈیسک: اسرائیل کی رسوائی کا آغاز ہوگیا ہے جوکہ حقیقت میں امریکہ کی رسوائی ہے، دنیا میں نئے بلاکس وجود میں آرہے ہیں، جدید نظام میں امریکہ کا کردار بہت محدود ہوگا۔
7 اکتوبر کو فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن کے بعد اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کی۔ تقریبا 50 دن بربریت کے باوجود اسرائیل اپنے اہداف حاصل نہ کرسکا اور بالاخر مجبور ہوکر جنگ بندی پر راضی ہوگیا۔
حماس اور اسرائیل کی جنگ اور مقاومتی تنظیمیں دنیا بھر میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ مہر نیوز نے مشرق وسطی کے حالات مخصوصا غزہ کی جنگ کے بارے میں اظہار رائے کے لئے کراچی یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی سے رابطہ کیا۔ ان کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
مہر نیوز: طوفان الاقصی سے صہیونی حکومت پر کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کیا اثر پڑا ہے؟
ڈاکٹر زاہد علی زاہدی: دیکھیں دنیا دیکھ رہی ہے کہ طوفان اقصی سے صہیونیت کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے، چنانچہ سید حسن نصراللہ فرماتے ہیں کہ صہیونی حکومت مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ ان مجاہدین کی نگاہوں میں واقعا مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے۔ ہمارے یہاں لوگوں کے ذھن میں تھا کہ اسرائیل بہت طاقتور، اس کا دفاعی نظام بہت مضبوط اور اس کے پاس جدید ترین ٹیکناجی ہے۔ یہ چیزیں خاک میں مل چکی ہیں۔
اب اسرائیل کی ذلت کا آغاز ہوگیا ہے
یہ سب سے بڑا دھچکہ ہے کہ جو لوگ اسرائیل کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ اسرائیل کے اندر اسرائیل کی موجودہ حکومت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
حماس جن لوگوں کو قیدی بناکر لے گئی ہے ان کو اسرائیل رہا نہیں کروا سکتا ہے۔ مذاکرات کے ذریعے کچھ لوگوں کو رہا کروایا ہے اور اس کے بدلے اسرائیل بہت بڑی تعداد یعنی کم از کم تین گنا فلسطینیوں کو رہا کررہا ہے۔ اب اسرائیل کی ذلت کا آغاز ہوگیا ہے۔ اسرائیل کا مطلب اس کے پیچھے موجود امریکہ کی رسوائی ہے جو کہ ظاہر ہے اسرائیل کو ہر طرح سے سپورٹ کرتا ہے۔
مہر نیوز: امریکہ کی بھرپور حمایت کے باوجود اسرائیل لبنان اور یمن پر حملوں سے کیوں گریز کررہا ہے؟
ڈاکٹر زاہد علی زاہدی: اسرائیل جیسا کہ میں نے عرض کیا بہت کمزور ہے یعنی اس وقت اپنی تاریخ کے کمزور ترین دور سے گزر رہا ہے اس لئے وہ اس کو afford نہیں کرسکتا۔ اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے لئے زیادہ محاذ کھولے کیونکہ اگر وہ لبنان یا یمن میں خود کو engage کرے تو اس کے پاس اتنی فوج نہیں ہے لہذا وہ یہ غلطی نہیں کرے گا حالانکہ ابتدائی دن یعنی 8 اکتوبر سے حزب اللہ نے بھی حملہ کیا۔ لبنان کے جو علاقے اسرائیل کے قبضے میں ہیں، وہاں حزب اللہ نے حملہ کیا، فوجیوں کو مارا، ٹینک تباہ کئے اور ان پر ڈرون حملہ کیا۔ اسرائیل نے بھی حزب اللہ کے جوانوں کو شہید کیا اس کے باوجود اسرائیل کو زیادہ نقصان پہنچا لیکن اسرائیل کوئی بھرپور حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
مہر نیوز: بعض مبصرین طوفان الاقصی کو تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں، کیا مشرق وسطی اگلی عالمی جنگ کا میدان بن سکتا ہے؟
ڈاکٹر زاہد علی زاہدی: بن سکتا ہے لیکن فی الوقت نہیں بنے گا کیونکہ یہ بات کسی کے لئے بھی قابل برداشت نہیں ہے کہ تیسری عالمی جنگ چھڑجائے اور مشرق وسطی کی اس جنگ کے اندر دوسری قوتیں بھی کود پڑیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا سب سے بڑا نقصان علاقے کے ممالک کو ہوگا اور اس سے بہت ہی خطرناک المیہ جنم لے گا جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ اس لئے باتیں سب کررہے ہیں لیکن کسی کے اندر یہ ہمت نہیں ہے کہ اس کے اندر کودے تو امید یہی ہے کہ ایک عالمی جنگ نہیں ہوگی۔
مہر نیوز: چین اور روس نے پہلی مرتبہ اسرائیل کے خلاف فلسطین کا کھل کر ساتھ دیا، اس سے عالمی سطح پر امریکہ اور صہیونیت کی اجارہ داری کو کتنا خطرہ ہوسکتا ہے؟
دیکھیں چین کی جو پالیسی ہے اس کو دیکھتے ہوئے پوری دنیا کے اقتصاد کو مستقبل میں وہی کنٹرول کرنے جارہا ہے لہذا امریکہ کو اس وقت چین سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ دوسری طرف روس مسلسل امریکہ کی پالیسی کو counter کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل کو استعمال کررہا ہے۔ یوکرائن میں ہم نے دیکھا کہ پورا یورپ اور امریکہ نے ساتھ دیا اس کے باوجود اب تک روس کا پلہ بھاری ہے۔ تو مشرق وسطی میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ چین اور روس نے امریکی پالیسی کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دینے کے بجائے اسرائیل کی مذمت کی ہے۔ تو یہ تو اب دنیا کے سامنے آرہی ہے کہ دنیا میں نئے بلاکس بن رہے ہیں اور جو نئے بلاکس بن رہے ہیں اس میں چین کا اہم رول ہے اور چین، روس، ایران اور دیگر ممالک مل کر ایک نیا مشرق وسطی اور نئے ایشیا کی بنیاد رکھنے جارہے ہیں اور اس نقشے میں امریکہ کا کردار بہت ہی محدود ہوگا اگر ایسا ہوگیا تو اس کا نقصان امریکہ معیشت کو بھی بہت گہرا ہوگا کیونکہ امریکی معیشت کی بنیاد جنگ پر ہے یعنی war based economy ہے تو ان کی خواہش ہے کہ دنیا میں جنگیں ہوتی رہیں تاکہ ان کا اسلحہ بکتا رہے لیکن اگر پالیسی شفٹ ہوجاتی ہے تو اس کا ultimate نقصان امریکہ کو ہوگا۔