[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ-آذر مہدوان: غزہ کی پٹی میں 47 روزہ جنگ کے بعد جنگ بندی کا عمل کے جاری رہنے سے خطے میں نسبتاً امن قائم ہوا ہے لیکن غزہ میں ہونے والی پیش رفت سے پتہ چلتا ہے۔ بہت سے بااثر ممالک کی حقیقی پالیسی صیہونی حکومت کی جانب سے اس علاقے پر بمباری کے لیے مغرب کی واضح حمایت اور بعض عرب ممالک کی جانب سے موثر اقدام کا فقدان ان پالیسیوں میں سے ہیں جن کے مزید تجزیے کی ضرورت ہے۔
اس دوران مسئلہ فلسطین اور صیہونی حکومت کے بارے میں ترکی کی پالیسی زیادہ قابل غور ہے۔ غزہ جنگ کے بعد ہم نے انقرہ کے حکام بالخصوص ترک صدر رجب طیب اردگان کے شدید ردعمل کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس حد تک کہ اردگان نے صیہونی حکومت کو دہشت گرد گروہ قرار دیا۔ لیکن یہ ردعمل محض بیان کی حد تک ہے لیکن ہم نے عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں دیکھا۔
مثال کے طور پر ترکی کی بندرگاہ جیحون سے آذربائیجانی تیل کی مقبوضہ فلسطین میں ترسیل جاری ہے، دوسری طرف صیہونی حکومت کے پائلٹ قونیہ میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی سے مقبوضہ فلسطین میں تجارتی جہازوں کی منتقلی کا سلسلہ اس وقت تک جاری ہے جہاں سے روزانہ 7 تجارتی جہاز ترکی سے مقبوضہ علاقوں کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔
مہر نیوز کے ترکی (استنبول) سیکشن نے اس ملک کی “مستقبل” پارٹی کے نائب سربراہ “امید یاردیم” کے ساتھ ایک انٹرویو کیا ہے جس کا مقصد حالیہ پیش رفت اور ترکی کی حکمران جماعت “جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ” کی پالیسی کا تجزیہ کرنا ہے۔
امید یاردیم ویانا، تہران اور ماسکو میں انقرہ کے سابق سفیر رہے ہیں جو اب احمد داؤد اوغلو کی قیادت والی فیوچر پارٹی کی خارجہ پالیسی کے شعبے میں سیاست دان کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
اس انٹرویو کی تفصیل درج ذیل ہے:
مہر نیوز: ترک حکام نے فلسطین کے حوالے سے صیہونی حکومت کے خلاف مسلسل تنقیدی موقف اپنایا ہے اور انقرہ حکام کے الفاظ میں ہمیشہ غزہ کے عوام کی حمایت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان تمام جذبات اور بیانات کے باوجود انقرہ اور تل ابیب کے درمیان کاروباری تعلقات ہمیشہ بہترین سطح پر رہے ہیں۔ یہ تعلقات ماضی سے قائم ہیں۔ مثال کے طور پر 2009 میں ڈیووس اجلاس میں اردگان نے صیہونی حکومت کے اس وقت کے وزیر اعظم شمعون پیریز کے خلاف سخت تقریر کر کے دراصل فلسطین کے سب سے بڑے حامی کا کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت ترکی کے صیہونی حکومت کے ساتھ تجارتی تعلقات اردگان اور شمعون پیریز کے درمیان زبانی کشیدگی سے متاثر ہوئے بغیر جاری رہے۔ آپ حزب اقتدار کی اس پالیسی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟۔
امید یاردیم ویانا: سب سے پہلے میں آپ کو غزہ میں ہونے والی پیش رفت اور اس مسئلے کے حوالے سے ممالک کے ردعمل کا ایک جائزہ پیش کرتا ہوں۔
7 اکتوبر کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ خطے کی حکومتوں کے درمیان خاص طور پر عسکری اور دفاعی شعبوں میں کوئی مضبوط اتحاد اور یکجہتی نہیں ہے۔
مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اسلامی تعاون کے ممالک کے اجلاس کا انعقاد ایک مثبت عمل سمجھا جاتا ہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور ہم تقریباً دو ماہ سے غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے حملوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ان حملوں میں دسیوں ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں اور عملی طور پر غزہ کا نصف جغرافیہ خالی کرا لیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں فلسطینی عوام کی یہ حقیقت ہے، گو کہ خطے میں مزاحمت کا محور موجود ہے، لیکن مزید اہم اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں جب کہ خطے کے ممالک کا ردعمل زیادہ سیاسی رہا ہے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سیاسی ردعمل جو اس وقت مختلف حکومتوں کی طرف سے دیکھا جا رہا ہے وہ 1947، 1948 یا اس کے بعد کے سالوں میں نہیں تھا؟ لیکن غزہ کے واقعات بتاتے ہیں کہ اس کا مکمل اثر نہیں ہوا۔
آپ نے مسئلہ فلسطین پر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی پالیسی کے بارے میں پوچھا۔ ترکی کی حکمران جماعت کو غزہ اور فلسطین کے معاملے میں زیادہ موثر ہونا چاہیے۔ ترک حکومت اسرائیل کے خلاف سخت تنقید کر سکتی ہے لیکن یہ زبانی تنقید بھی عملی ہونی چاہیے۔ انقرہ غزہ کے مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انقرہ کی حکومت فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کرتی ہے لیکن اسرائیل کے خلاف اس کا ردعمل ناکافی ہے۔
غزہ کی حمایت کے حوالے سے میں نہ صرف ترکی بلکہ دوسرے ممالک جیسے کہ اردن، عراق اور سعودی عرب کو بھی قصور وار ٹھہراتا ہوں۔ گو کہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نیتن یاہو پر خوب تنقید کرتی ہے اور اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیتی ہے لیکن جب ہم ترکی کے اقدامات کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عملی طور پر جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کوئی عملی کارروائی نہیں کی گئی۔
مہر نیوز: میں اپنے پہلے سوال کی طرف آتا ہوں، اسرائیل کے جرائم پر ترکی کے شدید ردعمل کے باوجود اس حکومت کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات جاری ہیں۔ دوسری جانب اردگان صرف نیتن یاہو کو ذاتی طور پر مخاطب کرتے ہیں اور انہیں غزہ میں ہونے والے جرائم کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جبکہ نیتن یاہو کا نظریہ صیہونی حکومت سے مختلف نہیں ہے۔ ہم نے کئی بار انقرہ اور تل ابیب کے درمیان سیاسی تعلقات کے خاتمے کے حوالے سے ترک عوام کے احتجاج کا مشاہدہ کیا ہے۔ آپ اس مسئلے کا کیسے جائزہ لیتے ہیں؟
غزہ میں اسرائیل کے جرائم کا تعلق صرف نیتن یاہو کی پالیسیوں سے نہیں ہے، حالانکہ نیتن یاہو ایک بنیاد پرست اور انتہا پسند شخص ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ شخص صیہونی حکومت کا وزیر اعظم نہ ہوتا اور کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو کیا ہوتا؟ اسرائیل کے رویے میں تبدیلی آتی؟
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ نیتن یاہو کے جانے سے مسئلہ فلسطین حل ہو جائے گا جب کہ ایسا نہیں ہے، جو چاہے وزیراعظم بنے، اسرائیل ہمیشہ کے لیے وہی اسرائیل ہے۔ فلسطینی عوام اور مزاحمتی گروہ اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کے پاس امریکہ کی حمایت سے ایک مضبوط فوج ہے اس لیے دیگر ممالک کو بھی ایک علاقائی طاقت کے طور پر اسرائیل کے جرائم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ نیتن یاہو سے پہلے ہم نے فلسطین کے خلاف صہیونیوں کے حملوں اور ظلم و ستم کا مشاہدہ کیا۔ 1967، 1973 یا 2006 کی جنگ اسرائیل کے بھاری حملوں کی مثالیں ہیں۔ اسرائیل میں نہ صرف نیتن یاہو کی حکومت ہے بلکہ ایک جنگی رجیم ہے جو اس وقت حکمراں ہے۔
لیکن ترک حکومت کا ردعمل سیاسی کھیل جیسا ہے۔ جب ترک صدر نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہیں اور آخر میں کہتے ہیں کہ ہمیں اسرائیل سے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ انقرہ کا تل ابیب کے ساتھ اپنے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو کمزور کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
آپ دیکھیں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی میں میرے دوستوں میں بہت سے لوگ ہیں جو فلسطینی کاز کی حمایت کرتے ہیں۔ تمام میٹنگز (سیاسی میٹنگز) اور احتجاج میں اکپارٹی کے قریبی گروپ ہوتے ہیں۔ حکمراں جماعت پر میری تنقید کا نقطہ نظر یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں ہے۔ اسرائیل کے معاملے پر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے سیاسی رویے اور عمل کے درمیان گہری خلیج حائل ہے۔ اس مسئلے کا تعلق ان کے ضمیر اور وجدان سے ہے۔
مہر نیوز: آپ کے خیال میں انقرہ حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا جو اس نے اب تک نہیں کیا؟
میں ایسے حل کے حق میں ہوں جن کا اثر 50 سال بعد بھی محسوس ہوگا۔ مثال کے طور پر فلسطین کا مسئلہ جو اس وقت عالمی سیاست دانوں کا اہم موضوع ہے پچھلے 70 سالوں سے جوں کا توں ہے۔ یعنی جب صیہونی حکومت قائم ہوئی یا جب اس حکومت نے فلسطینی عوام کے خلاف اپنے حملے شروع کیے تو ہم نے بعض مواقع پر اس قسم کی ملاقاتیں یا رد عمل کا مشاہدہ کیا ہے لیکن اب ہم اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل کا قبضہ جاری ہے۔ اسرائیل سے نمٹنے کا بہترین حل “خطے کے ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی اور دفاعی ڈھانچہ” تشکیل دینا ہے۔
سیاسی، اقتصادی یا یہاں تک کہ سیاحتی اعتبار سے پابندیاں لگانے کی تجویز پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ یہ اچھے حل ہیں اور انقرہ حکومت اور خطے کی دیگر حکومتوں کو ان پر عمل درآمد کرنا چاہیے، لیکن یہ کافی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی ممالک کے اجلاس کے آرٹیکل 6 میں اسرائیل کو فوجی ہتھیار بھیجنے کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ بعض عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ اسلحہ جاتی تعلقات ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اسرائیل کو نہ صرف فوجی ہتھیار بھیجنا بند ہونا چاہیے بلکہ ایسی برآمدات کو سپورٹ کرنے والے سامان اور آلات کو بھی روکنا چاہیے۔
غزہ کے حوالے سے ہونے والی تمام ملاقاتیں اور کوششیں اہم ضرور ہیں لیکن یہ مستقل حل نہیں ہیں۔ اسلامی ممالک اقتصادی اور عسکری سمیت تمام شعبوں میں اپنے تعلقات کو وسعت دیں۔ خاص طور پر 20 سے 30 سال کے اندر فوج جیسا مشترکہ عسکر ڈھانچہ بنانے کی ضرورت ہے۔ نیٹو کی طرح کا ڈھانچہ۔ البتہ مجھے نیٹو منظور نہیں، ہم نے دیکھا کہ اس تنظیم نے افغانستان کو کیسے تباہ کیا۔ ہم نیٹو کی چھتری تلے مغربی ممالک کے فوجی تعاون کا مشاہدہ کر رہے ہیں، روس بھی اجتماعی سلامتی معاہدے کی تنظیم کا رکن ہے، اس لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان بھی اسی طرح کے اتحاد کی ضرورت ہے۔
مہر نیوز: غزہ کی حالیہ پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا اسرائیل اور ترکی کے تعلقات میں تبدیلی آسکتی ہے؟
میری رائے میں انقرہ اور تل ابیب کے تعلقات میں تبدیلیاں آنی چاہئیں۔ پچھلے ایک یا دو سالوں میں ہم نے صیہونی حکومت کے عہدیداروں کے ترکی کے دورے اور سرکاری استقبالیہ تقریبات کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ مجھے اور فیوچر پارٹی کو منظور نہیں۔ کیونکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں مسئلہ فلسطین کو ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن بہت سے ممالک نے مسئلہ فلسطین سے قطع نظر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لایا ہے۔ جب تک فلسطینی حکومت قائم نہیں ہوتی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا فضول اور غلط ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ممالک کو معمول پر لانے کا معاملہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبوں کا حصہ تھا۔