[]
حیدرآباد: حیدرآباد میں شعبہ خواتین، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے 15 نومبر 2023 بروز چہارشنبہ، بمقام میٹرو کلاسک گارڈن، آرام گڑھ میں بعنوان “اسلام میں خواتین کے حقوق” پر ایک عظیم الشان جلسہ عام مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب، صدر پرسنل لا بورڈ کے زیر نگرانی منعقد کیا گیا۔
صدر مولانا نے خواتین و طالبات کی کثیر تعدا کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کہ اب تک مسلم پرسنل لا بورڈ نے جتنے اہم کام کئے ہیں ان میں سب سے اہم کام خواتین کے حقوق کی حفاظت ہے۔ہندوستان میں 1937 میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ پاس کیا گیا جس کے تحت خواتین کو حق میراث اسلامی شریعت کے مطابق دیا گیا اور دوسرے تمام عائلی قوانین پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی۔
1938 میں قانون فسخ نکاح بنایا گیا، جس کے تحت شوہر کے ظلم سے پریشان بیوی کو نکاح فسخ کرانے کی اجازت دی گئی۔1972 میں بورڈ کی بنیاد بھی اسی مقصد سے ڈالی گئی کہ اسلامی قوانین کا تحفظ کیا جائے۔
اس دور کی مرکزی حکومت قانون متبنی مسلمانوں پرلاگو کرنا چاہتی تھی، لیکن اس قانون سے اسلام کے تمام عائلی قوانین کے متاثر ہونے کا اندیشہ تھا جس کے سبب ہندوستان کے اکابر علماءنے بورڈ کی بنیاد ڈالی اورحکومت کو اس قانون کے مضمرات سے آگاہ کیا اور اسلامی قوانین میں اس قانون کو شامل کرنے سے روک دیا۔
اوپر کی تصویر میں جلسہ عام کے موقع پر تمام مقریرین دیکھے جاسکتے ہیں۔ نیچے کی تصویر میں طالبات اور خواتین کی کثیر تعدا پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے دیکھی جاسکتی ہے
مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب،جنرل سکریٹری ،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ” خاندانی نظام میں خواتین کا مطلوبہ کردار” پر روشنی ڈالتے ہوئی فرمایا کی قرآن کے سورہ بقرہ، آل عمرآن اور النساء میں خواتین کے حقوق کا ذکر کثرت سے اور متواتر آیا ہے۔
اس کے باوجود بھی اسلام دشمن عناصر اسلام میں خواتین کے حقوق پر انگلی اٹھاتے ہیں جبکہ دوسرے مذاہب میں خواتین کے کئی حقوق کا ذکر تک نہیں ہے۔یہاں تک کہ میراث میں خواتین کے حقوق سے لے لیکر حق طلاق و خلع وغیرہ کی تعلیمات انہوں نے اسلام سے لی ہیں۔
مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب، سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے ” خاندانی تنازعات کا حل اور اسلامی ہدایات” پر روشنی ڈال ہوئے کہا کہ مسلمان مرد اور عورتوں کو تنازعات کی صورت میں چاہئے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع ہوں۔
اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے فیصلہ آجانے کے بعد پھر ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی اور کی طرف رخ کریں۔وہ صرف اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی اتباع کریں۔جھگڑے اور تنازعات اسی وقت سر اٹھاتے ہیں جب انسان اپنے حقوق حاصل تو کرنا چاہتا ہے لیکن دوسروں کے حقوق ادا کرنا نہیں چاہتا۔
مفتی شاہ جمال الرحمٰن صاحب،امیر شریعت آندھرا و تلنگانہ نے کہا کہ اگر مرد اسلام پر چلتا ہے تو اسلام گھر کے دروازے پر پہنچتا ہےاور عورت اگر اسلام پر چلتی ہے تو دین گھر میں داخل ہوتا ہے۔ مرد و خواتین کو چاہئے کہ قرآن و حدیث کے مطابق اپنے اعمال کو ڈھالیں تاکہ دنیا وآخرت میں فلاح پائیں۔
محترمہ جلیسہ سلطانہ یٰسین اڈوکیٹ صاحبہ، کنوینر شعبہ خواتین، آل اندیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اسلام دشمن طاقتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ طاقتیں دراصل اسلامی قوانین کو مٹانا چاہتی ہیں۔اسلامی قوانین کے خلاف غلط پروپگنڈہ کیا جارہا ہے، نئی نسل کے ذہن کو آلودہ کیا جارہا ہے جبکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو عورتوں کو بے شمار حقوق دیتا ہے، اس سے بہتر دنیا کا کوئی قانون نہیں ہے۔اگر یکساں سیول کوڈ لاگو کیا گائے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے تنازعات کے حل کے لئے دار القضاء یا مقامی علماء کی طرف رجوع کریں۔
ڈاکٹر قدوسہ سلطانہ، پرفیسر ای سی ای ڈپارٹمنٹ، ڈکن کالج آف انجینیرنگ اور ٹکنالوجی نے “یکساں سول کوڈ کے نقصانات” پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انسان کے بنے ہوئے اس قانون ، کو شیطانی قانون کہا جائے تو کم نہیں، یہ قانون عورت کو کہیں کا نہیں رکھے گا، معاملہ چاہے انفرادی زندگی کا ہو، خاندانی زندگی کو ہو یا سماجی زندگی کا ہو۔ عورت کی مکمل بربادی کے سوا اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
مولانا مفتی ضیاء الدین صاحب نقشبندی، صدر مفتی جامعہ نظامیہ حیدرآباد، نے “بین مذہبی شادی، اخلاقی، شرعی اور سماجی نقطہ نظر ” پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلام عورت کو غیر مسلم مرد سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں دیتا، چونکہ بیوی شوہر کے ماتحت رہتی ہے اس لئے یہ عین ممکن ہے کہ شوہر اس کو جہنم کے راستہ پر لیکر چلا جائے۔
مولانا شفیق عالم صاحب، نمائندہ جمیعت اہل حدیث نے “اسلام میں خواتین کے سماجی اور و معاشی حقوق ” پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو عورت کو معاشی حقوق عطا کرتا ہے۔ اس کے سماجی حقوق کے سلسلہ میں تو قرآن اور احادیث میں بے شمار احکامات ہیں۔
ڈاکٹر محمد خالد مبشر الظفر صاحب،امیر جماعت اسلامی تلنگانہ نے”اسلام میں خواتین کا حق میراث اور دیگر مذاہب کی تعلیمات” پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن ہی وہ واحد مذہبی کتاب ہے جوو عورتوں کو میراث میں حق دیتی ہے۔ عورت کو ماں، بیٹی، بیوی، نانی، دادی، بہن اور پوتی کی حیثیت سے میراث میں حق ملتا ہے۔
محترمہ حفصہ عابدین، ڈائرکٹر عابدین ٹرسٹ نے کہا کہ مردوں کے مقابلہ عورتوں کو میراث میں حق کچھ کم ہوتا ہے اس کی وجہ مرد کی معاشی ذمہ داریاں ہیں جبکہ خواتین کو ان ذمہ داریوں سے بری رکھا گیا ہے۔ڈاکٹر جوہر جہاں، سکریٹری،تنظیم نسواں، کل ہند تعمیر ملت نے ہندو مذہب میں عورتوں کی حالت زار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں عموماً لڑکی کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کردیا جاتا ہے جس کے سبب مرد اور عور ت کا تناسب بگڑ رہا ہے اور بیواؤ ںکو منحوس سمجھا جاتا ہے اور ان کے گھر والے ہی اس کو گھر سے دور کرنے کی کوشش میں کبھی واراناسی، تو کبھی متھرا، کاشی وغیرہ جیسے شہروں میں بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کرنے کے لئے سڑکوں پر چھوڑ آتے ہیں۔
عالمہ عظیمہ صدیقہ، نمائندہ جمیعت اہل حدیث، حیدرآباد نے عورت کو بحیثیت بیٹی، ماں،بہن اور بیوی کے کیا رول اسلامی سماج میں ادا کرنا ہے اس پر روشنی ڈالی۔محترمہ ناصرہ خانم صاحبہ، سابقہ ناظمہ جماعت اسلامی، تلنگانہ و آندھرا نے مغربی تہذیب میں عورت کے مقام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عورت کو گھر کے محفوظ ماحول سے نکال کر محفل کی رونق بنادیا گیا ہے، جہاں وہ ہر غیر آدمی کی تسکین کا سامان مہا کرنے والی شیئ بن گئی ہے۔مولانا عمرعابدین مدنی صاحب نے مسلم پرسنل لا بورڈ کا تعارف دیا اور کہا کہ یہ بورڈ ہندوستان میں پانچ دہوں سے اسلامی قوانین کی حفاظت کرتا ہوا آیا ہے۔
پروگرام کی شروعات مس ہاجرہ فاطمہ کی قرات کلام پاک سے ہوئی۔ڈاکٹر رفعت سیماء، فاؤنڈر چیرمن جامعہ مکارم الاخلاق، حیدرآباد اور مولانا محمد اسد ندوی ، آرگنائز، تفہیم شریعت کمیٹی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بور د نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔تقریباً دس ہزار کے قریب طالبات و خواتین نے اس پروگرام میں شرکت کی۔