[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے “الجزیرہ” ٹی وی چینل کو انٹرویو میں غزہ پر صیہونی حکومت کے زمینی حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں نے غزہ پر ایک بے سابقہ اور وسیع کارروائی کرتے ہوئے بیک وقت ہوائی، سمندری اور زمینی حملہ کیا لیکن وہ امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی مالی اور ہتھیاروں کی حمایت کے باوجود پسپائی پر مجبور ہوئے۔ یہ شکست الاقصیٰ طوفان کی کی شکست کے بعد دوسری ناکامی تھی جو پہلی شکست سے کئی گنا زیادہ رسواکن تھی کیونکہ پہلی ناکامی میں انہوں نے حیرت کا دعویٰ کیا تھا لیکن دوسری ناکامی میں انہوں نے پوری طرح مسلح لشکر کے ساتھ غزہ پر حملہ کیا تاہم مزاحمت کے نے انہیں ذلت آمیز پسپائی پر مجبور کر دیا۔ اس واقعے نے فلسطینی قوم کے نام ایک اور عظیم فتح تاریخ میں ثبت کی۔
الجزیرہ نیوز چینل کے ساتھ صدر رئیسی کی گفتگو کی تفصیلات کچھ یوں ہیں؛
بسم الله الرحمن الرحیم
ہمارے خطے میں ان دنوں ہونے والے واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں جو کسی بھی مذہب کے ہر آزاد اور باضمیر انسان کے دل کو زخمی کر دیتے ہیں۔
صیہونی حکومت کی طرف سے امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی حمایت سے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے بھیانک جرم نے دنیا کے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حکومت سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا ہے۔
اس وقت عالمی ماہرین، سیاست دان اور عوام ایک طرف جب کہ امریکہ اور کئی یورپی ممالک اور جعلی صیہونی حکومت دوسری طرف ہیں۔
تاہم یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہ جعلی حکومت ان مظلوموں کے خلاف ایسے جرائم کیوں کرتی ہے۔
وجہ واضح ہے جو کہ ان لوگوں کا جذبہ مزاحمت اور استقامت ہے جو شہید ہونے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنی سرزمین چھوڑنے کو بالکل بھی تیار نہیں۔
صیہونی حکومت نے گذشتہ ۷۵ برسوں کے دوران امریکہ کی حمایت سے فلسطینی عوام پر بڑے مظالم ڈھائے ہیں، بہت سے لوگوں کو شہید کیا ہے، بہت سوں کو قید اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے، ان کے مکانات کو تباہ کیا ہے اور ان کی زرعی زمینوں کو طاقت کے زور پر ہڑپ کیا ہے، لیکن اسے لوگوں کو مزاحمت اور اپنی سرزمین کو دوبارہ حاصل کرنے پر اصرار کرنے سے روکنے میں کامیابی نہیں رہی۔
حالیہ واقعات ان برسوں کے دوران مقدس مقدسات، مسجد اقصیٰ فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کا جواب تھے جس کا اظہار “الاقصیٰ طوفان” آپریشن میں ہوا۔
الجزیرہ؛ انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والے امریکی جو اس جعلی اور انسانیت دشمن حکومت کو غزہ میں جرائم کے لیے فوجی سازوسامان سے لیس کر رہے ہیں ان کے پاس ان شرمناک اقدامات کا اپنی قوم اور دنیا کے سامنے کیا جواب ہے؟
آیت اللہ رئیسی: میرے خیال میں فلسطینی عوام کی مزاحمت سے جو چیز آج سمجھی جا سکتی ہے وہ ان کا مظلومانہ طاقت ہے جیسا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مطابق فلسطینی عوام کو ایک مظلوم اور طاقتور قوم کہا جا سکتا ہے اور جذبہ استقامت ہے۔ اسی روح مزاحمت اور جذبہ استقامت سے فلسطینی قوم کو فتح و کامرانی حاصل ہوگی۔
آج ارادوں کی اس جنگ میں ایک طرف فلسطینی قوم ہے جو صیہونی حکومت اور امریکیوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی ہے جب کہ دوسری طرف وقت کے متکبر، جابر اور فرعون ہیں، یعنی امریکہ، صیہونی حکومت اور کئی یورپی ممالک ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ میں فلسطینی قوم فتح یاب ہوگی اور مستقبل فلسطین اور فلسطینی عوام کا ہے۔
الجزیرہ؛ جناب صدر، ان دنوں غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر غور کرتے ہوئے آپ کی ریڈلائنز کیا ہیں کہ اگر اسرائیلی حکومت ان کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اسلامی جمہوریہ ایران کا طرزعمل اس رجیم کے ساتھ کیسا ہوگا؟
آیت اللہ رئیسی: صیہونی حکومت نے خواتین اور بچوں کے قتل سے لے کر اسپتالوں، چرچوں اور مساجد پر حملے سے لے کر صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو قتل کرنے اورتنصیبات اور رہائشی علاقوں کو تباہ کرنے تک جو کچھ کیا ہے وہ سب ریڈلائنز ہیں جنہیں اس حکومت نے عبور کیا ہے۔
خبروں میں بتایا گیا کہ الجزیرہ نیٹ ورک میں آپ کا فلسطینی ساتھی صیہونی حکومت کی بمباری کی وجہ سے اپنے پورے خاندان سے محروم ہو گیا۔ یہ اقدام کون سے قانونی، اخلاقی اور انسانی معیارات کے تحت ہیں؟ صحافیوں کا قتل اور ان کے اہل خانہ کا قتل عام دنیا میں کہاں قابل قبول ہے؟
اس غاصب رجیم نے غزہ میں اپنے جرائم کی خبریں دنیا کے عوام تک پہنچانے سے روکنے کے لیے صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو قتل کرنے کے علاوہ اس خطے میں نیٹ ورکس، مواصلاتی لائنوں اور انٹرنیٹ کو بھی منقطع کر دیا ہے لیکن اقوام عالم آج بیدار ہیں۔
آج دنیا کے تمام شہروں صیہونی حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اور یقیناً مجھے الجزیرہ نیٹ ورک کی تعریف کرنی ہے جس نے بعض ذرائع ابلاغ کے برعکس جو غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کو سنسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں غزہ کے عوام کی آواز کو اپنے سنجیدہ فرض کے مطابق پوری دنیا میں پہنچایا۔
بہرصورت اس حکومت نے اپنے جرائم کے ساتھ تمام ریڈلائنز عبور کر لی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس معاملے میں اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت اور امداد کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کر دی ہیں۔
الجزیرہ؛ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کی حمایت کے حوالے سے بعض عرب اور اسلامی ممالک کی تنقید کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور کیا حالیہ جنگ کے دوران ایران کی جانب سے فوجی کارروائی نہ کرنے کا مطلب، جنگی اقدامات کو فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے حوالے کرنا ہے؟
آیت اللہ رئیسی: ایران مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ مزاحمتی گروہ اپنی تشخیص، فیصلہ اور عمل میں خود مختار ہیں۔ اس کے برعکس جو ممالک فلسطینیوں کی حمایت نہیں کرتے ان سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے ملک اور وطن کے جائز دفاع میں مارے جانے والے لوگوں کی حمایت اور دفاع کیوں نہیں کرتے؟
انہیں جواب دینا ہوگا کہ کس طرح امریکہ نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ صیہونی حکومت کی مدد کی ہے اور کئی یورپی حکام جو اس حکومت کے زوال سے خوف محسوس کرتے ہیں حتیٰ کہ اس کی حمایت میں مقبوضہ علاقوں میں بھی جاتے ہیں لیکن آپ مظلوم فلسطینی کے دفاع کے سلسلے میں اپنے فریضے پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
الجزیرہ؛ جناب صدر، اسرائیلی حکومت کے صدر حماس کو ایران کا اتحادی اور پارٹنر سمجھتے ہیں، کیا آپ اس معاملے کی تصدیق کرتے ہیں؟ اور اگر تصدیق ہو جائے تو الاقصیٰ طوفان آپریشن کی کامیابیوں میں آپ خود کو کس حد تک شریک سمجھتے ہیں؟
آیت اللہ رئیسی: مزاحمتی فورسز خواہ فلسطین، لبنان یا خطے کے دیگر حصوں میں ہوں، عوام کے اندر سے پیدا ہونے والی قوتیں ہیں جو ظلم سے تنگ آکر اپنے وطن اور حقوق کے دفاع کے لیے اکٹھے ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ قوتیں عوامی ہیں اس لیے وہ بیدار ہیں اور ظالموں اور جابروں کے خلاف ان کا اپنے عوام اور سرزمین کا دفاع ایک جائز دفاع ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے ان کی تائید اور حمایت ضروری ہے۔ ہم اس مسئلے کا کھلے عام اور سرکاری طور پر کئی بار اعلان کر چکے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ باطل اچھل کود کر رہا ہے لیکن اسے دوام میسر نہیں اور حق ہی باقی رہے گا اور فلسطینی عوام کا حق ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ مزاحمتی گروہوں کا ہر اقدام اسلامی جمہوریہ ایران کے حکم کے تحت ہے تو نہیں، ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
وہ تشخیص، فیصلہ اور عمل میں آزادانہ طور پر عمل کرتے ہیں اور یہ طریقہ کار اب تک ایسا ہی ہے اور اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔
الجزیرہ؛ جناب صدر، ایرانی وزیر خارجہ کے غزہ کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد سے عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان وسیع سفارتی اور سیاسی دوروں کا مقصد ان ممالک کی طرف سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے مشترکہ موقف پیدا کرنا ہے اور غزہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کراسنگ کو دوبارہ کھولنے کے کوششیں تیز کرنا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے بھی مختلف ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں سے ٹیلی فونک بات چیت کی، یہ سفارتی اور سیاسی کوششیں کس حد تک کامیاب رہیں؟
آیت اللہ رئیسی: مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ ہے اور بیت المقدس کی آزادی امت اسلامیہ کے لیے ایک اہم اور مرکزی مسئلہ ہے اور اسے ہمیشہ تمام اسلامی ممالک کا سب سے اہم اور مرکزی مسئلہ ہونا چاہیے۔ چونکہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں ہم آہنگی اور تعاون پیدا کرنے کے لیے اسلامی ممالک کے ساتھ ہمارے رابطے ضروری تھے، اس لیے ہم نے اس مسئلے کے آغاز سے ہی اس میدان میں سیاسی اور سفارتی کوششیں اور سرگرمیاں شروع کر دی تھیں، جو ہمارے خیالات کو سامنے لانے اور ایک دوسرے سے قریب ہونے میں بہت کارآمد ثابت ہوں گی اور یہ موئثر رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔
آج غزہ میں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے، اس خطے کا محاصرہ توڑنا اور اس کے مظلوم لوگوں کو امداد فراہم کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تعاون سے اسلامی ممالک کے سربراہان کے درمیان مشترکہ سوچ پنپنے کے لئے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ یہ مطالبات عالم اسلام کے متفقہ ہیں لہذا ان کو فوری طور پر پورا کیا جائے۔
علاوہ بر این اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ کے نتائج کہ جنہیں امریکہ اور چند ایک ممالک کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک نے منظور کیا، اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایک طرف دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کی خواہش ہے کہ فوری طور پر ان جرائم کو روکا جائے، اور جنگ بندی کے ساتھ غزہ کے عوام کو فوری ریلیف دیا جائے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت غزہ کی مظلوم خواتین اور بچوں کو قتل کرنے میں واحد مجرم نہیں ہے بلکہ امریکہ اور کئی یورپی ممالک کہ جنہوں نے ان ہولناک جرائم میں اس حکومت کی حمایت میں ایک بیان پر دستخط کیے ہیں، وہ بھی برابر کے شریک ہیں اور انہیں خدا، اپنی قوموں اور بیدار ضمیروں کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔
ہماری تمام سفارتی کوششوں کا مقصد غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت اور صیہونی حکومت کے خلاف علاقائی اور حتیٰ کہ غیر علاقائی اتفاق رائے پیدا کرنا تھا جس کا مشاہدہ فلسطین کی حمایت اور امریکہ اور صیہونی حکومت سے نفرت کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ یہ عالمی سطح کا عوامی احتجاج انہی رابطوں کا نتیجہ ہے۔
الجزیرہ؛ جناب صدر، فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں ایران کی فوجی مداخلت اور عملی اقدام کے حامیوں کے بارے میں آپ کا کیا ردعمل ہے؟
آیت اللہ رئیسی: ہم نے کئی بار اعلان کیا ہے کہ ہم فلسطینی مزاحمتی تحریک کی حمایت اور دفاع کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف ہمیں بلکہ عالم اسلام کے تمام ممالک اور دنیا کے تمام آزاد ممالک جو امریکہ کے کنٹرول میں نہیں ہیں، ان کی حمایت کریں اور فلسطینی مزاحمتی تحریک کا دفاع کریں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ تحریک مزاحمت نے اپنے دفاع کے ساتھ صیہونی حکومت کو کس طرح غیر فعال بنا دیا ہے۔ صیہونیوں نے غزہ پر فضائی، سمندری اور زمین سے بے سابقہ اور وسیع کارروائی کی لیکن امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی مالی اور فوجی مدد کے باوجود وہ پسپائی پر مجبور ہوئے۔ یہ ناکامی اور پسپائی، الاقصیٰ طوفان کی ناکامی کے بعد مزاحمت کے ہاتھوں صیہونیوں کی دوسری ناکامی تھی جوکہ پہلی سے بہت بھاری شکست تھی کیونکہ پہلی شکست میں انہوں نے حیرت کا دعویٰ کیا تھا، لیکن دوسری میں انہوں نے مسلح فوج کے ساتھ غزہ پر حملہ کیا اور مزاحمت نے انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا۔ اس واقعے نے فلسطینی قوم کے نام ایک اور عظیم فتح ثبت کر دی ہے۔
صیہونی حکومت اور اس کے حامی اپنی مبینہ طاقت سے ان مزاحمتی گروہوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے اور وہ خواتین اور بچوں کے قتل اور ہسپتال پر حملے کو اپنے لیے ایک کارنامہ سمجھتے ہیں، جب کہ یہ اقدامات مایوسی اور اس حکومت کی مکمل ناکامی کی علامت ہیں۔
الجزیرہ؛ جناب صدر، امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ متعدد پیغامات بھیج کر انہوں نے ایران سے کہا کہ وہ غزہ میں جاری فوجی تنازعات میں مداخلت نہ کرے اور میدان جنگ کو دوسرے محاذوں تک پھیلانے کی کوشش نہ کرے، ان پیغامات پر آپ کا ردعمل کیا تھا؟
آیت اللہ رئیسی: امریکیوں کے پیغامات کا جواب مزاحمتی گروہوں کی طرف سے کھلے عام دیا جاتا ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ امریکی دوسروں کو کہتے ہیں کہ وہ کارروائی نہ کریں اور وہ خود دنیا کی نظروں کے سامنے صہیونیوں کو غزہ میں جرائم کرنے کے لیے درکار تمام ہتھیار، سازوسامان اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران مزاحمتی گروہوں کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتا ہے لیکن وہ ان کی حمایت کرے گا اور یہ حمایت مکمل طور پر دانشمندانہ، انصاف پسند اور انسانی اور اسلامی اصولوں پر مبنی ہے۔
آخری سوال کے طور پر کہ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ اس جنگ کا ہدف غزہ کی پٹی میں تحریک حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہے، کیا آپ کے خیال میں یہ حکومت ایسی صلاحیت رکھتی ہے؟
الجزیرہ؛ صیہونی رجیم اور امریکہ مزاحمت کو کسی بھی طرح سے شکست نہیں دے سکتے کیونکہ مزاحمت کا تعلق کسی مخصوص فرد یا گروہ سے نہیں بلکہ فلسطینی عوام کی جانوں اور خون سے ہے۔
وہ والدین جو اپنت بچوں کو اپنی نگاہوں کے سامنے کھو چکے ہوں یا وہ بچے جنہوں نے اپنے ماں باپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہیس ہوتے دیکھا ہو کیا اس کی مزاحمت کو کوئی روک سکتا ہے؟ کیا ایسے جذبہ انتقام کو ختم کرنا ممکن ہے؟
آیت اللہ رئیسی: یہ امریکہ اور صیہونی رجیم کی بھول ہے، انہوں نے اس غلط فہمی کی بنیاد پر ۷۵ سالوں سے فلسطینی عوام پر مظالم ڈھائے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ لوگوں کو محدود کرنے، قید کرنے، اذیتیں دینے اور قتل کرنے سے مزاحمت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، جبکہ تمام تر ان سالوں میں جوں جوں صیہونی حکومت کا ظلم بڑھتا گیا، مزاحمت کا دھارا مضبوط ہوتا گیا اور آج مزاحمت پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اعر طاقتور ہے کیونکہ اسے خدا پر بھروسہ ہے اور اسے اپنے عوام بلکہ تمام آزاد اقوام کی عوامی حمایت حاصل ہے۔ وہ اپنے جائز دفاع کے ذریعے امریکہ اور کئی یورپی ممالک کو صیہونیوں کی حمایت کرنے پر دنیا بھر میں رسوا اور تنہا کر چکے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران آج مزاحمت کی حمایت کرنے والے ملک کی حیثیت سے خدا اور اپنے عوام پر بھروسہ کرتے ہوئے ایسی طاقت رکھتا ہے جسے امریکی بھی پہچانتے ہیں۔ ہمارے عوام دھمکیوں اور پابندیوں کے باوجود ملک کے لیے بہت سی صلاحیتیں پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایران ایک طاقتور ملک ہے اور ایرانی قوم ایک مضبوط ارادہ رکھنے والی قوم ہے۔
امریکیوں کا اندازہ چاہے افغانستان میں ہو، عراق میں ہو یا دنیا کے دیگر حصوں میں، ہمیشہ غلط رہا ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں پر طاقت کے ذریعے حکومت کی جا سکتی ہے۔ آج خطے اور دنیا کے بہت سے لوگ اسلامی جمہوریہ سے اسلحے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی منطق اور انصاف پسند، آزادی پسند، حقوق سے محبت کرنے والے اور آزادی سے محبت کرنے والے موقف کی وجہ سے محبت کرتے ہیں جو کہ آج مزاحمت کا حامی ہے۔
الجزیرہ؛ ہمیں اپنا قیمتی وقت دینے کا بہت شکریہ۔
آیت اللہ رئیسی: میں فلسطینی عوام کی مظلومیت کی عکاسی کرنے پر آپ کا اور الجزیرہ نیوز چینل کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا اور مجھے امید ہے کہ آپ ہمیشہ اس درست اور اصولی موقف کو برقرار رکھیں گے۔