[]
ریاض ۔ کے این واصف
سعودی عرب کے مرد و خواتین زندگی کے تقریباُ ہر شعبہ میں دنیا کے شانہ بشانہ ہوگئے ہیں بس چند ایک میں فیچر فلم بنانے کا شعبہ باقی تھا جس میں سعودی شہری خالد فھد نے قدم رکھا اور کامیابی حاصل کرلی۔ روز نامہ عرب نیوز کے مطابق اس کی تفصیلات اس طرح ہیں۔ سعودی فلم ساز خالد فہد نے ’ویلی روڈ‘ کے نام سے فلم بنائی ہے جو سعودی عرب کی تاریخ میں بننے والی اپنی نوعیت کی پہلی فیملی فلم ہے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے خالد فہد نے بتایا کہ اس فلم کا آئیڈیا انہیں اپنی بھانجی سے بات کرتے ہوئے آیا جب وہ ٹھیک طرح سے ان کی باتوں کا جواب نہیں دے سک رہی تھیں۔خالد فہد کی بھانجی ’سیلیکٹو میوٹزم‘ نامی بیماری کا شکار ہیں جب وہ کسی مخصوص صورتحال میں بات نہیں کر سکتیں اور خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔اس فلم کی کہانی لکھتے ہوئے خالد فہد کو یہ بھی خیال آیا کہ آخر وہ اس موضوع پر کیوں لکھ رہے ہیں لیکن پھر جب انہیں اپنا بچپن یاد آیا تو انہیں اس کا جواب بھی مل گیا۔
خالف فہد نے بتایا کہ بچپن میں انہیں فیملی فلمیں پسند ہوتی تھیں جس میں میوزک، گانے اور ڈانس کے علاوہ اسپیشل افیکٹس بھی ہوں لیکن سعودی عرب میں اس قسم کی فلمیں نہ تو پروڈیوس ہوتی تھیں اور نہ ہی لوگوں کی اس حوالے سے ٹریننگ تھی۔خالد فہد ذاتی طور پر تو اتنے بڑے پراجکٹ کے لیے تیار تھے لیکن اس کے لیے متعلقہ لوگ تلاش کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔’میں پہلے تو مصر میں اسکوئیڈ نامی وی ایف ایکس کمپنی کے پاس گیا، مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میرے پاس ان کو دینے کے لیے اتنے پیسے بھی ہیں۔ میں نے انہیں تفصیل سے کہانی سنائی اور انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا۔ پھر ان سب نے ہنسنا شروع کر دیا۔ لیکن اس سے پہلے کے میں جانے کے لیے کھڑا ہوتا، انھون نے مجھے کہا کہ ’ہم اپنے بچپن سے اس قسم کے پراجکٹ پر کام کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہم تمہارے ساتھ کام کریں گے چاہے مفت میں ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔‘
اسی دوران خالد فہد نے کنگ عبدالعزیز سنٹر فار ورلڈ کلچر سے بھی رابطہ کیا جو فلمیں بنانے کے لیے فنڈنگ فراہم کرتے ہیں۔ فنڈنگ کے حصول سے لے کر ٹیم بنانے تک سب سے مشکل مرحلہ اداکار بچہ تلاش کرنا تھا جو علی کا مرکزی کردار ادا کر سکتا۔اس کردار کے لیے خالد فہد کو ایک ایسے بچے کی تلاش تھی جس کا اس سے پہلے ٹیلی ویژن میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہ ہو۔’ہم نے ریاض میں دس دنوں کے دوران 150 بچوں کا آڈیشن کیا۔ آخر میں ایک ماں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ آئی لیکن آڈیشن ایک نے دینا تھا۔ ہمارے کاسٹنگ سپروائزر نے دوسرے بھائی کو ہال میں بیٹھے ہوئے دیکھا اور اس سے پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آڈیشن دے رہا۔‘’تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد وہ مان گیا اور ہمیں فوراً ہی معلوم ہو گیا کہ یہ لڑکا حماد فرحان ہی ہمارا علی ہے۔‘
دس سالہ حماد اور فلم کی باقی کاسٹ نے بھی فاحد کے تصور کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے ایکٹنگ کوچز سے ٹریننگ حاصل کی اور ڈانس سکھانے کے لیے بیرون ملک سے کوریوگرافر لایا گیا۔اس دوران خالد فہد نے بھی ہالی وڈ کی فلموں کا قریب سے جائزہ لینا شروع کر دیا۔’جو لوگ الادین، کوکو، اینکانٹو اور لوکا جیسی فلمیں دیکھتے ہیں تو وہ فوراً ہی ان کرداروں اور کہانیوں کے ساتھ خود کو منسلک کر لیتے ہیں۔ اور مجھے بھی ایسا ہی کرنا تھا تاکہ دیکھنے والے ہماری سعودی کہانی کے ساتھ بھی کوئی کنیکشن تلاش کر سکیں۔‘
فلم ویلی روڈ کی ٹیم کو تو اپنی تخلیق پر فخر تھا لیکن خالد فہد کو سامعین کے ردعمل کے حوالے سے خدشات ضرور تھے۔لیکن جب دسمبر 2022 میں ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں فلم دکھائی گئی تو اس کے اختتام پر سامعین نے خوشی سے چیخنا اور تالیاں بجانا شروع کر دیں۔’لوگ حیران تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ یہ بچہ خاموش ہے لیکن یہ کتنا کچھ کہتا ہے۔ ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہ کیا محسوس کر رہا ہے اور ہم بھی وہ محسوس کرتے ہیں۔‘خالد فہد کا کہنا ہے کہ فلم کے آخر میں لوگوں نے جو ردعمل دیا اور ان کے تاثرات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ سعودی عرب مین سنکڑون سنیما تھیٹرز کھل گئے ہین۔ اور یہان بالی ووڈ کی فلموں کی شوٹنگ بھی ہونے لگی ہے۔