فلسطین اورغزہ کے مظلومین کے لئے ہم کیا کرسکتے ہیں ؟

[]

رشحات قلم

عبد القیوم شاکر القاسمی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء امام وخطیب مسجد اسلامیہ استاد عربی ادارہ مظہرالعلوم نظام آباد تلنگانہ

9505057866

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پرجو مظالم ڈھاے جارہے ہیں معصوم وبے گناہ غزہ کے مسلمانوں پر جو ظلم وستم کے پہاڑ محض اس لےء توڑے جارہے ہیں کہ ان کی نسبت اسلام اور مسلمانوں سے ہے آے دن اخبارات میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے جو واقعات وحالات ہمارے علم میں آرہے ہیں جو خونی داستان پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہی ہے وہ انتہای تکلیف دہ اوردلوں کو تڑپادینے والی ہیں معصوم بچوں خواتین اوراسپتالوں پربھی بم برساے جارہے ہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شہید ہوچکے ہیں اوران گنت افراد موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں اس سےاندازہ ہورہا ہے کہ کس قسم کی بربریت کا مظاہرہ اسرائیل کررہا ہے اللہ حفاظت فرماے

مظلوموں کی ہر طرح سے مدد ونصرت فرمائے

اسرائیل اور اس جیسی فرعونی طاقتوں کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ کرہ ارض

روے زمین پر ظلم سے بڑا کوی گناہ اورجرم نہیں ہے اوریہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے اور ظالم جب حدکو پارکرجاتا ہے تو اس کا خاتمہ یقینی ہوجاتا ہے یا تو مخلوق خدا اس کا انتقام لینے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے یا پھرخالق کائنات کو جلال آتا ہے جس کے نتیجہ میں ظالم تہس نہس ہوکر تباہی وبربادی اس کامقدر بن جاتی ہے

دنیا کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ

خون پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

موجودہ سنگین حالات اوراس بربریت کے تناظر میں ہمارا کیا فریضہ ہے اورہم کس اعتبار سے ان مظلوموں کا ساتھ دے سکتے ہیں تواس سلسلہ میں بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ

انسانی ہمدردی کے حوالہ سےہم مسلمان ان مظلوموں کے لےء شرعی حدود وملکی قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ہم (1)

سب سے پہلے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دعاؤں کا اہتمام کریں اس لیے کہ ہماری جانب سے کسی قسم کی امداد بہم پہونچانا جنگی یافوجی سامان فراہم کرنا یہ ایک ناممکن سی بات ہے مگر دعاؤں کی سوغات اوراللہ پاک سے ان پر ہونے والے مظالم کے دفعیہ کےلئے ہاتھ اٹھاکر دعاؤں کا مانگنا یہ تو ہرمسلمان کی قدرت اور بس میں ہے اسلئے اپنی اجتماعی و انفرادی دعاؤں میں ان مظلوموں کو یاد کرلیں قنوت نازلہ پڑھنے کی بھی اپیل کی گئی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں مروی ہیکہ آپ نے ظالم وجابر دشمنوں کی بربادی اور مظلوموں کو انصاف کے لےء رب کریم سے دعائیں مانگی ہیں

بئر معونہ کے موقع پر جب ستر صحابہ کرام کو دہوکہ سے شہید کردیا گیا تھا تو آپ نے ایک مہینہ تک مسلسل قنوت نازلہ پڑھی ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالموں کے نام لے لے کر بددعا بھی فرمای اور مظلوموں کے بھی نام لے کر ان کے حق میں مددونصرت کی اللہ سے درخواست کی

اسی لےء علماء کرام نے کہا کہ جب بھی کوی عمومی مصیبت یاآفت سماوی وارضی کا مسلمانوں پر نزول ہوں یا کسی ظالم کا ظلم حد سے بڑھ جاے تو مسلمانوں کو اجتماعی طورپر توبہ واستغفار کرتے ہوئے قنوت نازلہ پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے

(2)

دوسرا کام مسلمان عالم یہ کریں کہ اسرائیلی پروڈکٹ اورمصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں تاکہ معاشی اعتبار سے ظالم کمزور ہوں اس کی کمر ٹوٹے اورمالیہ پر زک پڑے اور ہوش ٹھکانے پر لگیں

لیکن سوال اینکہ کیا ہمارے اس طرح احتجاجی طور پر بائیکاٹ کرنے کا کچھ اثر پڑے گا ؟

تو معقول بات یہ ہیکہ ہمارے اس بائیکاٹ سے کوی خاص اور خاطر خواہ اثرپڑے نہ پڑے مگر چونکہ ظالم سے اظہار بیزارگی اور اپنےغم وغصہ کا اظہار بھی ہمارے اپنے بس میں ہے اس لےء ہم اس کام کو کریں چونکہ ہماری آپنی قدرت میں جو کچھ ممکن ہوسکے ہمیں وہ کام کرنا چاہیے اور یہی حق ہے

ہمارے سماج اورمعاشرہ میں یہ بات بہت عام ہے کہ اگر کسی رشتہ دار یا تعلق دارسے کوی تکلیف پہونچتی ہےتو ہم اس سےناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے ہیں اس کی خوشی اور غم میں شرکت سے گریز واجتناب کرتے ہیں حالانکہ ہماری شرکت وعدم شرکت سے اس کی تقریبات میں کوی خاص فرق نہیں پڑتا مگر چونکہ ہم اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا اپنا حق سمجھتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کرتے ہیں بالکل اسی طرح اسرائیلی پروڈکٹ اورمصنوعات کا بائیکاٹ کرکے ہم کچھ نہ سہی اپنے غم اورناراضگی کا اظہار تو کرسکتے ہیں اس لےء عالم اسلام کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہر وہ کام کردکھائیں جس سے ہماری ناراضگی کا اظہار ہوتا ہوں

باقی حالات تو اللہ کی مرضی پر چھوڑ کر ہم اپنے اعمال و اخلاق کا جائزہ لیں اورسیات سے توبہ واستغفار کرتے ہوئے حسنات کی جانب مائل ہوں اللہ پاک توفیق فہم وعمل نصیب فرمائے

آمین

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *