بھارت میں فلسطین نواز مظاہرین کے خلاف کارروائیاں

[]

حماس کے حملے پر وزیر اعظم مودی کی جانب سے اسرائیل کی حمایت میں دیے گئے بیان کے بعد سے بھارت میں فلسطین نواز اور اسرائیل مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔

بھارت میں فلسطین نواز مظاہرین کے خلاف کارروائیاں
بھارت میں فلسطین نواز مظاہرین کے خلاف کارروائیاں
user

Dw

اسرائیل مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی کا تازہ ترین واقعہ بدھ کے روز ممبئی میں پیش آیا جب پولیس نے جنوبی ممبئی میں اسرائیلی پرچم کی مبینہ توہین کرنے کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کرلیا۔

پولیس نے یہ کارروائی بھنڈی بازار علاقے میں ایک چوراہے پر اسرائیلی پرچم کی مبینہ توہین کا ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے کے بعد کی۔ ممبئی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ اسرائیل اور حماس میں حالیہ لڑائی شروع ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر خصوصی نگاہ رکھی جارہی ہے اور امن و قانون کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی معاملے سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

لیکن انتظامیہ کی جانب سے کارروائیوں کے باوجود بھارت کے مختلف ریاستوں اور اہم شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جموں و کشمیر، کولکاتہ، بنگلورو سے بھی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔ جب کہ متعدد جماعتوں نے جنوبی ریاست تمل ناڈو کے دارالحکومت چینئی میں مظاہروں کی اپیل کی ہے۔

اترپردیش میں گرفتاریاں

بی جے پی کی حکومت والی اترپردیش ریاست کے حمیر پور میں پولیس نے ایک مسلم مذہبی رہنما کو مبینہ طورپر فلسطین کی حمایت کرنے پر “منافرت پھیلانے” کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔جب کہ ایک دیگر مسلم مذہبی رہنما کو تلاش کررہی ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ مسلم مذہبی رہنما سہیل انصاری نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ وہ فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک دیگر پوسٹ میں انہوں نے لوگوں کو مبینہ طور پر مسجد میں جمع ہونے کی اپیل کی تھی۔ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ “انہوں نے اپنی پوسٹ میں بعض ایسے تبصرے کیے تھے جو ممنوع ہیں اور جن سے امن وقانون کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔” ایک مقامی عدالت نے سہیل انصاری کو 14دنوں کے لیے عدالتی تحویل میں دے دیا ہے۔

قبل ازیں اترپردیش میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فلسطینیوں کی حمایت میں جلوس نکالنے کے الزام میں چار طالب علموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ خیال رہے کہ ہندو قوم پرست رہنما ریاستی وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ نے وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل فلسطین کے تنازعے میں ایسا کوئی بیان یا کوئی عمل برداشت نہیں کیا جائے گا جو مرکزی (مودی) حکومت کے موقف کے خلاف ہو۔

وزیر اعظم مودی نے کیا کہا تھا؟

بھارت ایک خودمختار اور آزاد فلسطین ریاست کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن 7 اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے کے چند گھنٹے کے اندر ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایکس پر پوسٹ اپنے بیان میں کہا کہ انہیں “ان دہشت گردانہ حملوں سے سخت صدمہ پہنچا ہے۔اور وہ مصیبت کی اس گھڑی میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ “

حالانکہ بعد میں جب اس بیان پرنکتہ چینی ہونے لگی تو بھارتی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے بھارت کے دیرینہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ، “بھارت ایک خودمختار،آزاد اور قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے براہ راست مذاکرات کے دوبارہ آغازکی وکالت کرتا ہے جہاں وہ اسرائیل کے ساتھ محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہ سکیں۔”

تجزیہ کاروں نے وزیر اعظم مودی کے بیان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار آنند کے سہائے کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے “دہشت گردی کی تمام شکلوں” کی مخالفت کا ذکر بنیادی طورپر پاکستان کے پس منظر میں کیا ہے۔ لیکن یہ بھارت کی فلسطین کے حوالے سے دیرینہ پالیسی کے خلاف ہے۔

دہلی میں بھی گرفتاریاں

دہلی کے مشہور جنتر منتر علاقے میں بھی درجنوں افراد بالخصوص جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ، اساتذہ اور دانشوروں نے فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے۔ پولیس نے کم از کم 60 مظاہرین کو حراست میں لے لیا اور بعد میں ایک دور افتادہ جگہ پر لے جا کرچھوڑ دیا۔ مظاہرین “فلسطین کے لیے امن” اور “غزہ ہم تمہارے ساتھ ہیں” کے نعرے لگا رہے تھے۔

اپوزیشن جماعتوں نے بھی فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے باضابطہ بیانات جاری کرنے کے ساتھ ہی ایک 20 رکنی وفد کے ساتھ دہلی میں فلسطینی سفیر سے ملاقات کی۔ فلسطینی سفیر عدنان ابوالہیجا نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا،”ہمیں امید ہے کہ بھارت غزہ کے محصور کو روکنے میں اچھا کردار ادا کرے گا اور غزہ میں ہمارے لوگوں تک انسانی امداد پہنچنے میں مدد کے لیے اسرائیلی حکومت پر دباو ڈالے گا۔”

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *