[]
مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں اور جارحیت میں اضافے اور تسلسل کے ساتھ ہی وائٹ ہاؤس کی جھوٹ پھیلانے کی مشین میں بھی تیزی آگئی ہے۔
گذشتہ رات غزہ کے المعمدی ہسپتال پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملے اور ایک ہزار سے زائد فلسطینی خواتین اور بچوں کی شہادت کے بعد دنیا نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ایک بڑے جھوٹ کا مشاہدہ کیا۔
بائیڈن نے اس سے قبل میڈیا کو حماس کے ہاتھوں اسرائیلی بچوں کے سر قلم کئے جانے کی جھوٹی کہانی بھی سنائی تھی۔
بائیڈن اور صہیونی بچوں کے سر قلم کرنے کا جھوٹ
صیہونی رجیم کے میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ حماس کی فورسز نے صیہونی بستیوں پر حماس کے حملوں کے آغاز کے بعد “کم از کم 40 صیہونی بچوں کے سر قلم کیے۔
اسرائیلی میڈیا کا یہ جھوٹ تیزی سے ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کرنے لگا یہاں تک کہ امریکی صدر کے بیان میں بھی اس جھوٹ کو جگہ مل گئی۔
اس سلسلے میں نیتن یاہو کے ترجمان ٹال ہینریچ نے بتایا تھا کہ “غزہ سے 2 کلومیٹر شمال مشرق میں کفار شہر میں سر بریدہ بچوں کی لاشیں مل گئی ہیں۔
اس پر صیہونیت نواز کچھ میڈیا ہاوسز نے صہیونی فوج کے دعوے کی بنیاد پر فورا دعویٰ کیا کہ حماس کی افواج نے ہفتے کی صبح کئے گئے حملے میں “کئی اسرائیلی بچوں” کے سر قلم کئے ہیں۔
اس دوران بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں یہودی کمیونٹی کے رہنماؤں سے ملاقات میں یہ دعوی کیا کہ انہوں نے بچوں کے کٹے ہوئے سروں کی تصاویر دیکھی ہیں۔
بائیڈن نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے بچوں پر خوفناک اور “برے” تشدد کی تصاویر دیکھی ہیں جو عراق اور شام میں داعش کی طرف سے دیکھائی جانے والی تصاویر سے کہیں زیادہ “خوفناک” ہیں۔
بائیڈن کا جھوٹ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ انہوں نے مزید ڈھٹائی کے ساتھ کہا “میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایسا کچھ دیکھوں گا، دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کے سر قلم کیے جانے کی تصدیق شدہ تصاویر”۔
تاہم یہودی رہنماؤں سے ملاقات میں امریکی صدر کے عجیب و غریب اور بے بنیاد بیانات کو ابھی چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ وائٹ ہاؤس ایک بار پھر بائیڈن کے فریب اور جھوٹ کی تردید کرتے ہوئے بیان جاری کرنے پر مجبور ہو گیا۔
امریکی نیوز چینل “سی این این” نے بھی ایک سرکاری اہلکار کے حوالے سے لکھا ہے کہ نہ تو بائیڈن اور نہ ہی ان کی انتظامیہ نے حماس کی طرف سے بچوں کے سر قلم کیے جانے کی تصدیق شدہ تصاویر یا رپورٹس دیکھی ہیں۔ اس اہلکار نے واضح کیا کہ بائیڈن کے بیانات اسرائیلی حکام اور میڈیا کے جھوٹ اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر تھے۔
دوسری طرف واشنگٹن پوسٹ نے آخر کار وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بائیڈن اور دیگر امریکی حکام نے اس بات کا ثبوت یا آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی کہ حماس نے اسرائیلی بچوں کے سر قلم کیے ہیں۔ بلکہ جو کچھ انھوں نے کہا وہ صیہونی میڈیا رپورٹس اور نیتن یاہو کے ترجمان کے دعوے کی بنیاد تھا۔
اس کے علاوہ بولے دوسرے جھوٹ بھی برملا ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر فلسطینی مزاحمتی فورسز کے ہاتھوں صہیونی بستیوں میں خواتین کی عصمت دری کے جھوٹے دعوے شائع کرنے والے اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے لکھا: یہ دعویٰ ثابت نہیں ہوا!
دوسری جانب فرانسیسی ٹی وی نے بھی رپورٹ دی ہے کہ “اسرائیلی بچوں کو پنجروں میں رکھنے” کی ویڈیو جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ غزہ سے متعلق ہے، سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ در اصل یہ ویڈیو شام میں داعشی دہشت گردوں کے جرائم (2015) سے متعلق ہے۔
مبصرین کی نظر میں صیہونی رجیم کے وحشیانہ حملوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے صیہونی بچوں کے سر قلم کئے جانے کے دعوے پر مبنی جھوٹ کو پھیلایا گیا۔ دشمن کا خیال تھا کہ اس جعلی کہانی سے وہ غزہ میں نسل کشی کی راہ ہموار کر پائیں گے۔
صیہونیوں نے جھوٹ اور پروپیگنڈے کے اس ماحول میں غزہ پر وحشیانہ بمباری کر کے کئی ہزار بے گناہ شہریوں کی جان لے لی۔
المعمدانی ہسپتال پر بمباری بارے بائیڈن کا کھلا جھوٹ
غزہ میں صیہونیوں کے جرائم بارہویں روز میں داخل ہو گئے ہیں جب کہ صہیونی رجیم کے انسانی حقوق کی اور شرمناک مثال گزشتہ رات غزہ کے المعمدی ہسپتال پر وحشیانہ بمباری اور ہسپتال میں داخل زخمیوں اور پناہ لینے والے لوگوں کے خون بہنے سے ایک بار پھر ثابت ہو گئی۔
ایسا گھناونا جرم کہ مغربی ممالک جیسے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے پوری طاقت سے صیہونی حکومت کی حمایت کی۔
بائیڈن نے غزہ کے ہسپتال پر وحشیانہ بمباری کے خوفناک واقعے کے بعد، نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے تل ابیب پہنچنے پر المعمدانی ہسپتال میں ہونے والے دھماکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہسپتال میں دھماکے کی کاروائی “دوسرے فریق” کا کام تھا۔ اسرا ئیل کا نہیں!
انہوں نے مزید ڈھٹائی سے کہا کہ میں غزہ کے ہسپتال میں کل (منگل) کے دھماکے سے بہت افسردہ اور صدمے میں ہوں اور جو کچھ میں نے دیکھا اس کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ یہ دھماکہ دوسری طرف(حماس) سے کیا گیا ہے۔
اسی دوران امریکی اخبار “وال اسٹریٹ جرنل” نے بائیڈن کے جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے لکھا کہ غزہ میں المعمدانی ہسپتال پر جس بم سے حملہ کیا گیا وہ امریکی MK84 بم تھا جو کہ امریکی ساختہ کثیر المقاصد فری فال بم ہے جس کا وزن تقریباً ایک ٹن ہے اور یہ بم بہت زیادہ تباہ کن طاقت رکھتا ہے۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر حماس کے پاس اس سطح کی تباہی والا میزائل ہوتا تو وہ اسے مقبوضہ علاقوں میں مخصوص اہداف پر فائر کرتی۔
اس سلسلے میں بی بی سی کے نامہ نگار کا یہ بھی کہنا ہے کہ دھماکے کے حجم کو دیکھتے ہوئے اسے اسرائیلی میزائل کے علاوہ کوئی اور چیز سمجھنا بہت مشکل ہے۔
ڈھٹائی سے جھوٹ پھیلانے کی اس پروپیگنڈہ مشنری کے پس پردہ اہداف
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ غزہ پر صیہونی رجیم کے حملوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے اسرائیلی بچوں کے سر قلم کئے جانے کا دعویٰ ایک بڑا جھوٹ تھا۔
صیہونی دشمن اور ان کے مغربی آلہ کاروں کا خیال تھا کہ اس جھوٹ کے سہارے پوری دنیا کے عوام بالخصوص اسلامی ممالک کے عوامی جذبات کو غزہ میں صیہونی رجیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو جواز فراہم کرنے کے سلسلے میں قائل کیا جاسکتا ہے۔
اس ہدف کے تحت شائع ہونے والی جعلی خبروں کا مجموعہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے خلاف مغربی اور عبرانی ذرائع ابلاغ کی میڈیا وار کا حصہ ہے جس کے ذریعے ظالم و مظلوم کے موجودہ سناریو میں تبدیلی لا کر غاصب اور جارح صیہونیوں کو مظلوم دکھانا مقصود تھا۔
صیہونی اور مغربی میڈیا کے اس دانستہ جھوٹ کے دیگر مقاصد میں سے ایک صیہونی رجیم کو عالمی عدالتوں میں “جنگی مجرم” کے طور پر ممکنہ کیس سے بچانے کی کوشش ہے۔
کیونکہ غزہ میں گزشتہ 12 دنوں کے واقعات واضح طور پر فلسطینیوں کی نسل کشی اور صیہونی رجیم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو ثابت کرتے ہیں جو کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے قابل مذمت ہونے کے ساتھ قابل مواخذہ جرم بھی ہے۔
1949 کے جنیوا فور کنونشنز اور 1977 کے پہلے اور دوسرے ایڈیشنل پروٹوکولز بین الاقوامی انسانی قانون کے اتفاق رائے کی سب سے اہم دستاویز ہیں جس میں بین الاقوامی انسانی قانون سمیت انفرادی مجرمانہ اقدام کو بھی بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے اور مقبوضہ فلسطینیی علاقے کے لوگوں کے ساتھ انسانی برتاو اور ان کے ارادے کے برخلاف مقبوضہ زمینوں پر مخالفانہ آباد کاری پر پابندی بین الاقوامی انسانی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔
رہائشی مکانات پر بمباری، خواتین اور بچوں کو قتل کرنا، شہری تنصیبات، مکانات، اسکولوں، مساجد، پولیس اسٹیشنز اور عوامی مقامات پر حملہ، اہم انفراسٹرکچر کو تباہ کرنا، پانی اور بجلی منقطع کرنا، ہسپتالوں اور طبی مراکز کو تباہ کرنا، زخمیوں اور دوائی پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی روک تھام وغیرہ غزہ کی حالیہ کشیدگی میں صیہونی رجیم کے جنگی جرائم کی چند واضح ترین مثالیں ہیں۔
المعمدنی ہسپتال پر راکٹ حملوں کے بعد صیہونی مخالف جذبات اس حد تک شدت اختیار کر گئے کہ ترکی میں حکومت کے سفارت خانے اور لبنان میں امریکی سفارت خانے پر مسلمانوں نے حملہ کیا۔
اردن نے تین روزہ عوامی سوگ کا اعلان کیا اور ایران، عراق، کویت وغیرہ کے عوام نے بھی غزہ کے المعمدنی ہسپتال میں فلسطینیوں کی شہات پر غاصب صیہونی رجیم کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔
لہذا امریکی اور صیہونی سفارت خانوں پر قبضے کی خبریں واشنگٹن اور تل ابیب کے ان جھوٹے دعوؤں کو برملا کرنے کا ایک اہم ثبوت ہے۔
کیونکہ لوگوں کے غم و غصے میں اضافہ امریکہ اور صیہونی رجیم کی سلامتی اور مفادات کو نقصان پہنچانے کے ساتھ بعض عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے کو بھی ناکام بنا ڈالے گا۔