چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے ‘منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے

[]




شوکر علی صوفی (پی ایچ ڈی)

انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے فلسطینی جیالوں اور مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ
کٹتے ہوئے بھی چلو ‘بڑھتے بھی چلو
بازو بھی بہت ہیں ‘ سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے
منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے
ایسا لگتا ہے کہ ان کی یہ تمنا پوری ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ فلسطین میں جاری جنگ اب کی بار فیصلہ کن موڑ لیتی ہوئی لگتی ہے۔ اسرائیل اپنی شرمناک شکست کو چھپانے کے لئے مختلف حیلوں کی تلاش کررہا ہے ۔ جنگ بندی سے متعلق اس کی تازہ ترین پیشکش کو دیکھا جائے تو واضح طورپر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ جنگ سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل نے یہ پیشکش کی تھی کہ وہ حماس کے ساتھ جاری جنگ کو بند کردے گا اگر حماس اسرائیل کے یرغمالیوں کو رہا کردے۔ اس سلسلے میں ریڈ کراس سوسائٹی حماس کے ذمہ داروں سے بات چیت کرنے لگی ہے۔ دوسری طرف دنیا کے طاقتور ملک جس میں چین، روس، اور ایران شامل ہیںفلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کررہے ہیں جبکہ شام اور لبنان راست طورپر فلسطینیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
اسرائیل کو اپنی طاقت پر بہت بڑا گھمنڈ و تکبر تھا لیکن حماس نے اس کے انٹلیجنس شعبہ موساد کی دھجیاں اڑا کر ایسا حملہ کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ واشنگٹن سے ملنے والی اطلاع کے مطابق مصر نے اسرائیل کو حماس کے حملے سے تین روزپہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ اس کے اوپر فلسطینی مجاہدین کی یلغار ہوگی۔ بتایا جاتا ہے کہ جس وقت حماس کا حملہ ہوا اس وقت اسرائیل کے پاس بہت کم میزائلس موجود تھے جس کی وجہ سے وہ اپنا دفاع نہ کر پایا۔
ہندوستان کے سابق فیلڈ مارشل مانک شاہ نے یہ کہا تھا کہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ہتھیار کے پیچھے موجود ہمت اور دماغ سے لڑی جاتی ہے۔ ان کی یہ بات فلسطینی مجاہدین کے سرسے کفن باندھنے والے حقیقی جذبہ کو اجاگر کرتی ہے۔ آج دنیا کے چند ممالک اس بات کی مذمت کررہے ہیں کہ حماس نے معصو م شہریوں پر حملہ کیا ہے جبکہ صیہونی طاقت نہتے فلسطینیوں پر لگ بھگ روز ہی حملہ کرتی رہی اور بیشمار نہتے فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اب جبکہ اسرائیل کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ وہ سر کٹانے والی طاقت سے بِھڑ نہیں سکتا تو وہ دنیا کے مختلف ملکوں سے مصالحت کی گنجائیشیں فراہم کرنے کی اپیل کررہا ہے۔ جنگ بند کروا نے کے لئے پچھلے دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں امریکہ ۔ متحدہ عرب امارات ۔ ایران۔ ترکی اور اردن کے سربراہان کشیدگی پر قابو پانے کے اقدامات پر غور کیا۔ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان ٹیلی فونیک رابطہ پیدا ہوا۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور سعودی عرب کے ولعیہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی فون پر بات چیت کی۔محمد بن سلمان نے ترکی کے صدر رجب اردغان سے بھی امن کے بارے میں گفت و شنید کی۔ یو اے ای اور ایران کے وزرائے خارجہ نے بھی جنگ بند کروانے پر تبادلہ خیال کیا۔
اس دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی اسرائیل پہنچ گئے ہیں جبکہ وہ کل عمان میں فلسطینی صدر محمود عباس اور اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے بھی مصالحتی بات چیت کریں گے تاکہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مستقل امن کو بحال کیا جاسکے۔ اردن کے شاہ نے عالمی ملکوں سے مطالبہ کیا کہ جلد سے جلد آزاد مملکت فلسطین کا قیام عمل میں لایا جائے۔
عالمی کوششوں کے اثر کے طورپر حماس نے اس دوران اسرائیل کے یرغمالی شہریوں کو رہا کرنا شروع کردیا ہے۔ حماس نے سرحدیں کھول کر مختلف ملکوں سے ان کی مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔ عرب وزرائے خارجہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کا محاصرہ فوراً ختم کردے تاکہ معصوم شہریوں کی امداد کی جاسکے۔ ساری دنیا حماس کے اسرائیل پر ہوئے حملے پر تحیر کا اظہار کررہی ہے۔ یہ حملہ اس قدر راز داری میں کیا گیا کہ جس کی ایران کو تک بھی خبر نہیں ہوئی۔ بہرحال نام نہاد عالمی طاقتیں حماس کی اس عظیم قوت کو فراموش نہیں کرسکتیں۔ ان تمام کو اب بات چیت کی میز پر آنا ہوگا تاکہ ایک پایہ دار امن قائم کیا جاسکے۔ اسرائیل کو بھی احساس ہو چلا ہے کہ ہتھیار اور جنگ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔
اسرائیل کے قد امت پسند لوگ دل وجان سے فلسطینی کاز کی حمایت کرنے لگے ہیں یعنی عالمی سطح پر ہی نہیں بلکہ اس کے اپنے ملک میں بھی فلسطینی کاز کی بڑی حمایت ہونے لگی ہے۔ اسرائیل اب اس لئے بھی گھبرانے لگا ہے کہ اس کے حمایتی کمزور ہونے لگے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ پچھلے دنوں پریس کانفرنس کررہے تھے کہ اچانک میزائل داغے جانے کے سائرن بجنے لگے تو دونوں ہی کانفرنس چھوڑ کر بھاگنے لگے تھے۔ جب جان پہ آتی ہے تو لوگ اسے بچانے کے لئے ادھر اُـدھر بھٹکنے لگتے ہیں بس ایسی ہی حالت تمام اسرائیلیوں کی ہوگئی ہے۔
ماہرین مشرق وسطیٰ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ فلسطین کے سنگین مسئلہ کا حل بہت جلد نکل آئے گا کیونکہ ظلم کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ سارے عالم میں فلسطین کی فتح کے لئے ہونے والی دعائیں رائیگاں نہیں جائیںگی۔ فلسطین کو فتح ملے گی ضرور ملے گی۔ معلوم ہورہا ہے کہ روس اور چین اس بار فلسطینیوں کی عملی مدد کریں گے۔ ان کو بھی ایسا لگنے لگا ہے کہ زبانی ہمدردی مسئلہ کا حل نہیں نکالے گی۔ امریکہ جہاں عملی طورپر اسرائیل کی مدد کرتا ہے وہیں وہ فلسطین کی مکمل آزادی پر بھی زور دیتا ہے۔ سعودی ولیعہد اور امریکہ کے بیج زبردست دوستی ہے۔ وہ اس دوستی کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینی کاز کی بھرپور مدد کریں گے اور دیکھیں گے کہ امریکہ اسرائیل کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ نہتے فلسطینیوں پر ظلم و جبر کی اپنی نہج کو ترک کردے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو شاید اسرائیل کو کئی محاذو ں پر جنگ لڑنا پڑے گا جو اسے صفحہ ہستی سے مٹاسکتی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *