[]
نوجوان نے مضبوطی سے بزرگ کاہاتھ تھاماہواتھا ۔آہستہ آہستہ قدم اٹھا تے وہ دونوں ریستوران کے ہال میں داخل ہوگئے۔ان کے پیچھے خاندان کے دیگر افراد بھی آگئے۔مینیجر لپک کر ان کے پاس آیااور انھیں مخصوص میزپر بٹھادیا۔بزرگ کا سانس کچھ درست ہواتو اس نے ہال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی اور اس کے بعد مسکراکر اپنی بیگم،بہو،بچوں اور پوتوں کو دیکھنے لگا ، وہ خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔کچھ دیر میں کھانا آگیا۔ نوجوان پلیٹ اورچمچ تھام کر بزرگ کی طرف متوجہ ہوالیکن بزرگ نے ہاتھ اٹھاکر اسے منع کردیا اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ خودکھانے لگا۔ والدین کااچھا یا براعمل وہ کمیٹی ہے جو بڑھاپے میں بچوں کے رویوں کی صورت میں کھلتی ہے۔
پرورش کے لیے کوئی مخصوص اورمتعین فارمولا نہیں ہے جس کی بنیاد پرہم یہ کہہ سکیں کہ انسان اس فارمولے پرپورااُترے تووہ کامیاب ہو جائے گاکیونکہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں۔ دنیا میں سات ارب انسان ہیں۔ان کے اپنے اپنے مزاج ہیں، کوئی اچھا ہے کوئی برا ہے تو کوئی دونوں کا مجموعہ۔ ہر انسان شعور ، لاشعور اور تحت الشعور کی کیفیات سے گزرتاہے۔ہر انسان میں خیر و شر کامادہ ، ضمیر، دِل ، روح اور نفس ہوتاہے۔ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم پرورش کے لیے مخصوص قاعدہ نہیں بناسکتے البتہ کچھ باتوں پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔
اس کپکپاہٹ میں کچھ خوراک اس کے کپڑوں پر گررہی تھی ۔اردگرد میزوں پر موجود لوگ یہ منظر دیکھ کر ناگواری کااظہار کررہے تھے اورسرگوشیوں میں بوڑھے شخص کی ’’حرکت‘‘پراسے کو س رہے تھے لیکن نوجوان اِن سب سے بے نیاز کھانے میں مصروف تھا ۔وہ وقفے وقفے سے ٹشو کے ساتھ باپ کے کپڑے اور منہ صاف کرتا اورمسکراکر باتیں بھی کرتاجاتا۔کھانا ختم ہوگیاتو نوجوان نے باپ کا ہاتھ تھامااور اسے پکڑ کر واش روم کی طرف لے گیا۔کچھ لمحوں بعد جب وہ واپس آئے تو بوڑھے شخص کے کپڑوں پر جہاں جہاں خوراک گری تھی وہ جگہ دھلی ہوئی تھی اور وہ بیٹے کی طرف پیار سے دیکھ رہا تھا۔
نوجوان نے کھانے کابل ادا کیا اوراٹھ کر جانے لگا۔ابھی وہ ہال کے دروازے کے پاس پہنچا تھا کہ ایک بھاری آواز سنائی دی۔’’جوان! تم کچھ بھول رہے ہو!!‘‘ اس نے پیچھے مڑکر اپنی میز کی طرف دیکھا، پھر اپنا موبائل اور بٹوہ دیکھا سب چیزیں موجود تھیں۔وہ بولا:’’نہیں جناب ،میری چیزیں موجود ہیں۔‘‘اجنبی بولا:’’نہیں ، تم کچھ چھوڑ کر جارہے ہو۔تم یہاں موجودہر بچے کے لیے سبق چھوڑ کر جارہے ہوکہ اپنی والدین کی عزت کیسے کرنی ہے ۔تمہارا یہ فعل یہاں موجود بزرگوں کو اُمیددلاتاہے کہ ان کی اولاد ان کے ساتھ اچھا برتائو کرے گی۔‘‘ یہ کہہ کر اجنبی تالیاں بجانے لگا، جب کہ وہ لوگ جو کچھ دیر پہلے بوڑھے شخص کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پر تنقید کررہے تھے اپنے رویے پر شرمندہ تھے ،وہ بھی اٹھ کرزوردارانداز میں تالیاں بجانے لگے۔
فرض کریں کہ آپ جون کی تپتی دوپہر میں بس کے انتظار میں کھڑے ہیں۔سورج چاروں طرف آگ برسارہاہے اور آپ پسینے سے شرابور ہیں۔اس وقت آپ کا دوست گاڑی چلاتا ہواآپ کے پاس آکر رُک جائے ۔یقیناآپ کی خوشی کاٹھکانہ نہیں ہوگا۔آپ گاڑی میں بیٹھ گئے اور ائر کنڈیشنڈ کی ٹھنڈی ہوا جب آپ کے چہرے پر پڑی توآپ جسم میں ٹھنڈ ک او رسکون کی لہردوڑ گئی۔آپ کی تھکن ، گرمی کی شدت اور انتظار کی کوفت ۔سب ایک لمحے میں ختم ہوجائے گی، لیکن یقین جانیں کہ شدید گرمی میں اے سی کی ٹھنڈک میں بیٹھنا اتناسکون نہیں دیتا جس قدر اولاد کی طرف سے ملنے والی خوشی سکون دیتی ہے۔اولاد کی تابعداری انسان کی پوری زندگی کی تھکاوٹ اتاردیتی ہے۔اسی طرح اولاد کی نافرمانی انسان کو تپتی دوپہر کے سورج سے زیادہ جلا دیتی ہے اوراسے تڑپا دیتی ہے۔
والدین کااچھا یا براعمل وہ کمیٹی ہے جو بڑھاپے میں بچوں کے رویوں کی صورت میں کھلتی ہے۔ والدین کی ذمہ داری اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ بچوں کے لیے جیتی جاگتی مثال ہوتے ہیں۔وہ اپنے رویے ، قول و فعل اور سوچ سے جس طرح تربیت کرنا چاہیں ، کرسکتے ہیں۔ والدین اپنی اولاد کو بہترانسان بناناچاہتے ہیں لیکن پرورش کے متعلق ان کے ذہن میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ پرورش کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ہمیں ایسی تدابیر سکھادے جوہم بچوں پر نافذ کردیں اور اس کی بدولت وہ بہتر انسان جائیں دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کامطلب انھیں اچھی نصیحتیں کرنا ہے…یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔
پرورش کے لیے مخصوص اورمتعین فارمولا نہیں ہے جس کی بنیاد پرہم یہ کہہ سکیں کہ اگر اس فارمولے پرپورااترے تووہ کامیاب انسان بن جائے گاکیوں کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیں۔ دنیا میں سات ارب انسان ہیں۔ان کے درجنوں مزاج ہیں، کوئی اچھا ہے ، کوئی برا ہے تو کوئی درمیانہ۔ انسانی شخصیت کی سولہ اقسام ہیں۔انسانی جذبات اور احساسات کی تعداد ستائیس سے زیادہ ہیں۔ہر انسان شعور ، لاشعور اور تحت الشعور کی کیفیات سے گزرتاہے۔ہر انسان میں خیر و شر کامادہ ضمیر،دِل ، روح اور نفس ہوتاہے۔ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم پرورش کے لیے مخصوص قاعدہ نہیں بناسکتے۔البتہ کچھ مفید تجاویز پیش کرسکتے ہیں جن پرعمل کیا جائے تو بچوں کی بہترتربیت ہوسکتی ہے…
پرورش کامطلب کیا؟
ہمارے ہاں پرورش کا مطلب ’’بچوں کی تربیت‘‘ سمجھا جاتاہے، جب کہ درحقیقت پرورش کا مطلب والدین کی تربیت ہے۔کیوںکہ والدین کی سوچ ، عادات ، رویہ اوراندازِ گفتگو درست ہوگا تو بچے ان کی طرح بنیں گے اور ان کی بہتر تربیت ہوسکے گی۔اگر والدین ان تمام خوبیوں سے محروم ہوں تو پھر بچوں کی تربیت نہیں ہوسکے گی۔والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو اچھالباس، کھانا اور سہولیات دینے سے ان کی ذمہ داری ادا ہوجاتی ہے لیکن یہ بھی غلط سوچ ہے۔اعلیٰ فرنیچر،قیمتی گھر اور شان دار طرزِ زندگی سے بچوں کی تربیت مکمل نہیں ہوتی بلکہ ماں باپ نے مل کرگھر کاجو ماحول بنایا ہوتاہے وہی بچوں کی زندگی کی سمت طے کرتاہے۔
پرانے زمانے کے والدین کیسے تھے؟
ایک سوال یہ بھی کیاجاتاہے کہ آج کے والدین زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور وہ ٹیکنالوجی کے ہتھیارسے بھی لیس ہیں تاہم اس کے باوجود وہ ایسی تربیت نہیں کرسکتے جیسی آج سے بیس ، پچیس سال پہلے کے والدین کرتے تھے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تربیت کا تعلق تعلیم سے نہیں ہے۔ایسا ممکن ہے کہ کسی انسان کی تعلیم کم ہو مگروہ تربیت یافتہ ہو اور اسی کی بدولت وہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرے۔اس کے برعکس ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی شخص نے پی ایچ ڈی کی ہو لیکن وہ تربیت سے محروم ہوتووہ ڈگری کے باوجود بچے کی تربیت نہیں کرسکے گا۔دراصل تربیت ایسی چیز ہے جو نسل درنسل منتقل ہوتی ہے۔پرانے زمانے میں والدین اپنی اولاد میں تربیت منتقل کرتے تھے ۔یہ مختلف طرح کی رسموں ، رواجوں اوراقدار وروایات کی شکل میں منتقل ہوتی تھی اوروالدین کے ساتھ ساتھ خاندان اور معاشرے کے دوسرے افراد بھی اس معاملے میں اپنا کردارادا کرتے تھے۔
بچوں کے بگاڑکی وجہ ؟
آج کے بچے زیادہ تعلیم یافتہ ، وسائل یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں بگاڑ بھی زیادہ ہے ۔اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
جوانسان جو اپناکام ایما نداری سے نہیں کرتا،جوڈیوٹی کے وقت ذاتی کام کرتاہے ، جو اصولوں کی خلاف ورزی کرتاہے تو ایسے شخص کی تنخواہ حلال نہیں ہوتی۔اس تنخواہ سے جب وہ بچوں کو کھلاتاہے تو اس کے نتائج بھی خطرناک نکلتے ہیں ۔
جو انسان اپنے والدین کاگستاخ ہو تو اس عمل کا انجام وہ مرنے سے پہلے اس طرح دیکھتاہے کہ اس کی اولاد گستاخ اور نافرمان بن جاتی ہے۔
والدین کی حد سے زیادہ سختی اور دبائو بچوں کو بغاوت پر مجبور کرتاہے۔ایسے بچوں کو جب بھی موقع ملتاہے تووہ اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس وجہ سے بگاڑ کا شکارہوجاتے ہیں۔
تین چیزیں لازمی کریں:
اگر آپ بچوں کی اچھی تربیت کرناچاہتے ہیں تواس کے لیے تین کام لازمی طورپر کریں۔
خودشناسی
آپ کا بچہ جس صلاحیت کے ساتھ دنیا میں آیا ہے ، اسے دریافت کرنے میں اس کی مدد کریں۔تحقیق سے ثابت ہواہے کہ بچہ اگرچند سال کا ہو تو اس کا مزاج اور رجحان بھی دریافت کیا جاسکتاہے۔بچے کی خودشناسی کے لیے اس سے مختلف سرگرمیاں کروائیں ، اسے کھلونے لاکر دیں ،اس کی گفتگو نوٹ کریں ۔ان تمام سرگرمیوں کی بدولت آپ کافی حد تک جان جائیں گے کہ بچے کا مزاج کیا ہے اور وہ کیا بننا پسند کرتاہے۔
ادب و اخلاق
اپنے بچوں کو آداب اور اخلاقیات سے مزین کریں اوران کی عادت بنادیں۔انھیں ایسا مجبور نہ کریں کہ وہ آپ کے سامنے باادب ہوں اور جہاں آپ موجود نہ ہوں تو وہ بے ادب و گستاخ بن جائیں۔
معاشرتی اقدار
معاشرے میں رہتے ہوئے ہمیں انسانوں کے ساتھ معاملات کرنا پڑتے ہیں ، اس لیے بچوں کوسماجی زندگی اور اس کے اصولوں سے متعارف کروائیں ، جیسے سلام کرنا،سلام کا جواب دینا، گھر کادروازہ کھولنا، مہمان کو خوش آمدید کہناوغیرہ وغیرہ…یادرکھیں ! تعلیم کا مقصد ادب واحترام ہے۔جاپان کے اسکولوں میں بچوں کو یہی کچھ سکھایاجاتاہے جب کہ بدقسمتی سے ہم نے کتابیں رٹنے کوتعلیم کا نام دیا ہے۔
توکل
بچوں میں توکل پیداکیجیے۔انھیں قیمتی لباس خرید کر دینا یا مہنگے سکولوں میں داخل کرانا اتنا اہم نہیں جتنا کہ ان کا اللہ کی ذات پریقین دلاناضروری ہے۔بچوں میں توکل تبھی پیدا ہوگا جب والدین کے اندربھی یہ خوبی ہواور وہ مایوسی والی سوچ نہ رکھیں…
مثلث
ماں ، باپ اور بچہ ، ایسی مثلث ہے جسے بہترین کمیونیکیشن مضبوط بناسکتی ہے۔ گھر کا ماحول ایسا ہونا چاہیے جس میں ہر ایک کو بولنے کی آزاد ی ہو ، وہ اپنے دل کی بات زبان پر لاسکے اور کسی سے کوئی شکایت ہے تو اسے بتاسکے۔جب اس مثلث میں گفتگو کرنے اور دوسرے فرد کو سننے کی گنجائش ہوگی تو پھر یہ وقت کے ساتھ مضبوط ہوتی رہے گی اوربچوں کا اعتماد بھی مستحکم ہوگا۔
والدین کا عمل
گھر میں والدین کارویہ اور عمل بچو ں کے ذہن میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔اگر بچے دیکھیں کہ میراباپ اپنی بہن کے ساتھ اچھے رویے سے پیش نہیں آتا، دادا بیمار ہے لیکن باپ اس کا حال نہیں پوچھ رہا ،میری ماں کئی مہینوں سے اپنی بہن سے بات نہیں کررہی توپھروہ بھی بڑا ہوکر اپنے بھائی ،بہن اورماں باپ کے ساتھ ایسا ہی کرے گا۔
والدین کتنے ذمہ دار؟
والدین جن چیزوں پر بچوں کو ٹوکتے ہیں یاجن چیزوں پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں،دراصل وہی بچوں کی تربیت ہے۔ ذہن میں رکھیں کہ وہ بچے زیادہ تربیت یافتہ ہوں گے جن کے والدین اس ذمہ داری کو بخوبی نبھائیں گے لیکن جووالدین اس سے جان چھڑاتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ یہ اسکول کا کام ہے توپھر وہ اپنے بچوں کو آکسفورڈ یونیوسٹی بھیجیں یاہارورڈیونیورسٹی بھیجیں ، وہ تربیت سے محروم رہیں گے اوروالدین کے لیے وبال بنیں گے۔
٭٭٭