ہندوستان کا انتہائی مطلوب دہشت گرد اکرام بنگلہ دیش میں گرفتار

[]

ڈھاکہ: بنگلہ دیش پولیس نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے دوسرے سب سے بڑے لیڈر اور ہندوستان کو انتہائی مطلوب دہشت گرد اکرام کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اکرام ہندوستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اس کے پاس سے ہندوستانی پاسپورٹ اوراس کی بیوی کاآدھار کارڈ ملا ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ اکرام کو خفیہ اطلاع کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ وہ بنگلہ دیش میں انصار الاسلام کے سرکردہ رہنما عثمان غنی عرف ابو عمران کا قریبی ہے۔

پوچھ گچھ کے بعد، ڈھاکہ پولیس کے انسداد دہشت گردی اور بین الاقوامی جرائم (سی ٹی ٹی سی) کو معلوم ہوا کہ اکرام القاعدہ کے ہندوستان میں یونٹ کا سربراہ ہے۔ ہندوستانی پولیس کو کافی عرصے سے اس مطلوب دہشت گرد کی تلاش تھی۔ وہ ابو طلحہ اور مولانا سبط کے نام سے مشہور ہے۔

پولیس نے بتایا کہ اکرام اور اس کی اہلیہ فاریہ آفرین کو 30 مئی کو شہر کے علاقے مدارٹیک سے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اب جیل میں ہیں، دونوں کو متعدد بار ریمانڈ پر لیا گیا۔ بعد ازاں اکرام نے عدالت میں اعترافی بیان دیا۔

تاہم اکرام کے رشتہ داروں نے دعویٰ کیا کہ 30 اپریل کو جب دونوں کو میمن سنگھ سے اٹھایا گیا تو ان کا بچہ بھی ان کے ساتھ تھا۔ سی ٹی ٹی سی حکام نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اکرام اور اس کی اہلیہ کو 30 مئی کو ایک آپریشن کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ جوڑے کا بچہ ماں کے ساتھ جیل میں ہے۔

عدالت اور تفتیشی ایجنسی میں دیے گئے بیان کے مطابق اکرام ضلع صدر کے گاؤں بورورچر کا رہائشی ہے۔ اس نے 2017 میں فرید آباد مدرسہ، ڈھاکہ سے حدیث مکمل کی۔ مدرسے میں تعلیم کے دوران وہ انصار الاسلام کے عثمان غنی کے زیر اثر دہشت گردی میں ملوث ہو گیا۔

اکرام کو سال 2018 میں ہندوستان کے دیوبند مدرسہ میں داخل کرایا گیا تھا جہاں اس نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کی اور تنظیم کا سربراہ بن گیا، اکرام ایک وقت میں صابو میاں کے بیٹے نور حسین اور نبیہ بی بی کے نام سے پاسپورٹ بنوایا تھا۔

 اس نے ہندوستان کے مغربی بنگال میں کوچ بہار کے علاقے ڈنہٹا کا پتہ دیا ہے۔ اس کی اہلیہ کے پاس بھی مریم خاتون کے نام سے بنا ہوا آدھار کارڈ ہے۔ اکرام القاعدہ کا دوسرا بڑا لیڈر ہے۔ وہ ہندوستان میں کم از کم 10 مقدمات میں ملزم ہے۔ اکرام اور ان کی اہلیہ تقریباً سات ماہ قبل بنگلہ دیش میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے تھے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *