[]
رپورٹ کے مطابق 2023 کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ایسی کئی مثالیں دیکھنے میں آئیں کہ جہاں نفرت بھری تقاریر نے نفرت بھرے جرائم کے ساتھ مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ کو بڑھا دیا۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ سرسنگھ سنچالک موہن بھاگوت کا مسلمانوں سے متعلق بیان اور ’ہندوتو واچ‘ کی رپورٹ تقریباً ساتھ ساتھ منظر عام پر آئی ہے؟ کیا موہن بھاگوت کی اتر پردیش میں آر ایس ایس کی میٹنگ میں دی گئی ہدایات اور مسلمانوں کے بارے میں دیے گئے بیان میں کوئی تضاد نہیں ہے؟
دراصل بھاگوت نے چند روز قبل مسلمانوں کے تعلق سے دیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’مسلمان بھی ہمارے ہیں، وہ پرائے نہیں ہیں۔ ‘‘ بھاگوت نے اپنے اس بیان میں مزید کہا کہ ’’یہ ملک ان کا بھی ہے، وہ بھی یہیں رہیں گے۔ ‘‘ بھاگوت کا ہندوستانی مسلمانوں پر کیے گئے اس ’احسانِ عظیم‘ کے لیے شکریہ، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان کا بیان صدق دلی پر مبنی ہے تو پھر سنگھ کی شاکھاؤں کے تربیت یافتہ ایک موالی، گالی باز اور بدزبان رکن لوک سبھا نے کچھ دن قبل پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ دانش علی کو ان کے مذہب کی بنیاد پرجو گالیاں دیں، ان کے ساتھ بدکلامی کی، اسے کیا مانا جائے؟ کیا اپنوں کو عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر اسی طرح غنڈوں جیسی زبان میں ذلیل کیا جاتا ہے؟ اور اگر گالی باز کا یہ طریقہ سنگھ کے مبینہ سنسکاروں کے خلاف تھا تو پھر انھیں سزا دینے کی بجائے ٹونک کا الیکشن انچارج بناکر جو انعام اور پیغام دیا گیا اسے کس خانے میں رکھا جائے؟ کیا سنگھ نے اپنی سیاسی پارٹی کی قیادت سے اس معاملے پر کوئی جواب طلب کیا؟ظاہر ہے ایسا نہیں ہوا، اور اگر ایسا نہیں ہو اتو پھر مان لیجیے کہ بھاگوت جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صرف مسلمانوں کو انتخابی مفادات کی غرض سے دیا جانے والا ایک فریب ہے۔ بھاگوت ماضی قریب میں یہ بھی فرما چکے ہیں ”کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں رہتے ہوئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ “ مجھے نہیں معلوم کہ بھاگوت کے ذہن میں یہ غلط فہمی کیسے آئی کہ اس ملک کے مسلمان ڈرتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے حد سے سوا تحمل کو بھاگوت ڈر یا خوف مان بیٹھے ہیں تو انھیں مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ڈر اور خوف ظالموں کا شیوہ ہے۔ اسی ڈر اور خوف کا نتیجہ ظلم کی شکل میں بر آمد ہوتا ہے۔ اب مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد کون کر رہا ہے یہ بھاگوت اچھی طرح جانتے ہیں۔ بھاگوت کا یہ کہنا کہ یہ ملک ان کایعنی مسلمانوں کا بھی ہے اور وہ یہیں رہینگے، سنگھ کے قول و فعل کے کھلے تضاد کا ہی ثبوت ہے۔ اگر بھاگوت یہ مانتے ہیں تو پھر بی جے پی کے زباں دراز لیڈر بار بار اور مختلف مواقع پر مسلمانوں کوکیوں پاکستان بھیجنے کی دھمکیاں دیتے ہیں؟ اور اگر یہ سب کچھ سنگھ یا بی جے پی کی پالیسی کے خلاف ہے تو پھر ایسا کہنے والے کتنے لوگوں کو پارٹی اور سنگھ سے باہر کا راستہ دکھایا گیا؟
سنگھ سربراہ کے مذکورہ بیان کا تضاد اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے حالیہ لکھنؤ دورے کے موقع پر انھوں نے سنگھ کارکنا ن کو اس بات کی بھی تلقین کی کہ ملک کے دیہی علاقوں میں ’لو جہاد‘ اور تبدیلی مذہب کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ایسے علاقوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی سنگھ اب ان علاقوں میں بھی زہر پھیلانے کا منصوبہ بنا رہا ہے کہ جہاں مذہبی منافرت کا جذبہ ا ٓپسی یگانگت و فرقہ وارانہ اتحاد پر حاوی نہیں ہو سکا ہے۔ کیا یہ کھلا فریب نہیں ہے کہ ایک طرف مسلمانوں سے بے خوف رہنے کے لیے کہا جاتا ہے، یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سنگھ مسلمانوں کو اسی ملک کا شہری مانتا ہے اور وہ بھی اس ملک کے لیے اپنے ہیں، لیکن دوسری طرف ان کے لیے نہ صرف یہ کہ زمین بلکہ عرصہ حیات بھی تنگ کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں؟اگر مسلمان سنگھ سربراہ کے بیان کے مطابق اپنے ہی ہیں تو پھر کسی مسلمان کے ساتھ کسی ہندو لڑکی کی شادی کو لو جہاد کہہ کر منافرت کیوں پھیلائی جاتی ہے؟’ہندوتو واچ‘ کی تازہ رپورٹ دراصل سنگھ کے اس دوہرے رویے کو بے نقاب کرتی ہے۔
’ہندوتو واچ‘ نے چند روز قبل جاری اپنی اس رپورٹ میں سال رواں کے ابتدائی چھ ماہ میں ملک بھر میں ہونے والی منافرتی تقاریر اور واقعات کا احاطہ کیا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کیونکہ ہندوستان میں منافرتی تقریر کے تعلق سے کوئی باقاعدہ واضح تعریف یا تشریح موجود نہیں ہے لہٰذا اس معاملے میں اقوام متحدہ نے جو معیار طے کیے ہیں انھیں سامنے رکھا گیا ہے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان کے تناظر میں اقوام متحدہ کی تعریف منافرتی تقاریر کی کئی شکلوں کو شامل کرتی ہے۔ اس میں تشدد کے لیے راست طور پر آمادہ کرنا اور مذہبی اقلیتوں کے سماجی، اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلیں بھی شامل ہیں۔ اس طرح کی اپیلوں کی کئی شکلوں کا ذکر رپورٹ میں ہے۔ ان میں نوکر شاہی یا عدلیہ جیسے ریاستی اداروں سے مذہبی اقلیتوں کو باہر کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ ’لوجہاد‘ جیسے مختلف سازشی ایشوز کی تشہیربھی شامل ہو سکتی ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ اس کٹّر سازش کے تحت یہ تشہیر کی جاتی ہے کہ مسلم مرد تبدیلی مذہب کے لیے ہندو خواتیں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کا استعمال نفرت پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے، اور جس کا ذکر بالائی سطور میں اتر پردیش میں موہن بھاگوت کی سنگھ ورکروں کو دی گئی ہدایات کے ضمن میں کیا گیا۔ رپورٹ میں خاص طور پر مختلف جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف کی گئی منافرتی تقاریر کو سامنے رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2023 کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ایسی کئی مثالیں دیکھنے میں آئیں کہ جہاں نفرت بھری تقاریر نے نفرت بھرے جرائم کے ساتھ مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ کو بڑھا دیا۔
اس سلسلے میں اسی سال 30 مارچ کو رام نومی کے موقع پر ایک ہندو خاتون لیڈر کاجل شنگلا کے مسلم خواتین کے خلاف کیے گئے نفرتی تبصرے کا ذکر ہے جس کے نتیجے میں گجرات میں فرقہ وارانہ فساد بھڑ کانے میں مدد ملی۔ رپورٹ کہتی ہے کہ اسی روز ریاست بہارکے بہار شریف میں اشتعال انگیز اور منافرت سے بھرپور نعرے لگاتے ہوئے ایک جلوس کے سبب تشدد پھیل گیا، جس میں ایک شخص کی موت ہو گئی اور کئی افراد زخمی ہو گئے۔ رپورٹ کے مطابق جون میں ہی نفرت پر مبنی تقاریر کے واقعات کئی جگہ پیش آئے۔ اس کے نتیجے میں مہاراشٹر کے کولہاپورمیں ٹکراؤ کے واقعات پیش آئے اور اتراکھنڈ میں ایک ماہ تک ’لوجہاد‘ ’بیوپارجہاد‘ اور ’اراضی جہاد‘ کے بہانے تشدد پھیلایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اس کے نتیجے میں ریاست کے کئی حصّوں سے مسلمانوں کو ہجرت کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ بھاگوت جب یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بھی اس ملک میں رہیں تو کیا ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انتہاپسند اور دہشت گر د فرقہ پرستوں کے رحم و کرم پر انھیں اس ملک میں رہنا ہوگا؟ اگر ایسا ہے تو بھاگوت کو یقین کر لینا چاہیے کہ اس صورتحال کو زیادہ طویل عرصے تک برداشت نہیں کیا جائیگا، اور اس کے نتائج خود سنگھ کے لیے انتہائی خطرناک اس لیے ہونگے کہ ملک کا عام ہندو بہرحال سیکولر ہے، اور وہ اس صورتحال کو دیر تک برداشت نہ کرنے کے سبب سنگھ کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اتراکھنڈ میں اقلیتی فرقے کو ڈرانے کی واضح کوشش کے تحت مسلم دکانوں و مکانوں کو xلکھ کر نشان زد کیا گیا تھا۔ یہاں راقم اپنے ایک ذاتی تجربے کا ذکر کرنا چاہیگا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو اس طرح منظم طریقے سے نشان زد کرنا فرقہ پرست تنظیموں کا پرانا طریقہ رہا ہے۔
میرٹھ میں 1987 کے بھیانک فرقہ وارانہ فساد کے دوران شہر کے شاستری نگر علاقے میں بھی مسلمانوں کے مکانوں کو اسی طرح نشان زد کیا گیا تھا، کیونکہ فساد سے پہلے یہاں مشترکہ آبادی تھی۔ ’ہندوتو واچ‘ کی رپورٹ میں مودی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ملک میں منافرتی تقاریر کا سلسلہ بڑھنے، سرکاری افسران کے اس میں ملوث ہونے، حتیٰ کہ بعض وزرائے اعلیٰ، ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ اور پارٹی سینئر لیڈران کے ذریعہ منافرتی تقاریر کرنے سمیت کئی ایسے موضوعات کا ذکر ہے جو فرقہ پرست طاقتوں کے ایجنڈے میں ہیں۔ رپورٹ کہتی ہے کہ سال رواں کے ابتدائی چھ ماہ میں ہندوستان کی 17 ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف منافرتی تقاریر یا ریلیوں کا انعقاد ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان ریاستوں میں بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کی تعداد 7 جبکہ ایسی کل ریاستوں کی تعداد 8 ہے۔ اس رپورٹ میں اور بھی بہت کچھ ایسا ہے کہ جو موہن بھاگوت کے شروع میں نقل کیے گئے بیان کی نفی کرتا ہے، اور اس بات کا ثبوت ہے کہ سنگھ سربراہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا مقصد یا تو بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے مسلمانوں کو بہلانا ہے، یا پھر اس طرح کے بیان اپنے ان لوگوں کے اقتصادی مفاد ات کا تحٖفظ ہے کہ جو ہندوستان سے باہر مسلم ممالک میں بر سر روزگار ہیں اور ایک خطیر رقم سنگھ کو چندے کی شکل میں بھیج رہے ہیں۔ یہ بات تو بہرحال طے ہے کہ بھاگوت کا بیان کسی بھی طرح سنگھ کے کارناموں اور اس کے فرقہ وارانہ ایجنڈے سے میل نہیں کھاتا۔ سنگھ کی ذیلی تنظیمیں ملک میں جو کچھ آئے دن کر رہی ہیں وہ اس کا ثبوت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;