نائیڈو کو فوری راحت دینے سپریم کورٹ کا انکار

[]

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آندھرا پردیش میں ہنر مندی کے فروغ کے مراکز کے قیام میں مبینہ گھپلے سے متعلق ایک معاملے میں سابق وزیر اعلیٰ این چندرا بابو نائیڈو کی پولیس حراست کے خلاف ان کی درخواست پر فوری غور کرنے سے انکار کر دیا، لیکن مقدمہ منسوخ کرنے کی درخواست پر غور کرنے پر اتفاق کیا۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرقیادت بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد یہ حکم دیا۔

بنچ نے کہا کہ یہ عدالت نچلی عدالت کو تیلگو دیشم پارٹی کے سربراہ چندرابابو نائیڈو کی پولس تحویل کی درخواست پر غور کرنے سے نہیں روکے گی۔

سینئر وکیل سدھارتھ لوتھرا نے عدالت عظمیٰ میں حاضر ہوکر نائیڈو کی عرضی کی فوری سماعت کا خصوصی ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ 8 ستمبر کو درخواست گزار نائیڈو کو پولیس نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دو دن کی پولیس تحویل دی گئی تھی اور اب پولیس 15 دن کی تحویل مانگ رہی ہے۔

لوتھرا نے اس کیس کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ انتخابات قریب آ رہے ہیں۔

اس پر بنچ نے وکیل سے پوچھا کہ آج آپ کیا چاہتے ہیں؟

لوتھرا نے عدالت سے بدعنوانی کی روک تھام کے قانون کی دفعہ 17A پر غور کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کو حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی تھانہ مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر اپنے فرائض سرانجام دینے والے سرکاری ملازم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ 3 اکتوبر کو بینچ کے سامنے سماعت کے لیے درج کیا جائے گا۔

مسٹر لوتھرا نے کہا کہ عدالت ایک بات پر غور کر سکتی ہے کہ ریاستی حکومت پولیس حراست کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے اور انہیں پولیس حراست کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔

اس پر آندھرا پردیش حکومت کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل رنجیت کمار نے کہا کہ خصوصی جج (جو ضلع جج ہیں) کو اس کا فیصلہ کرنے دیں۔

بنچ نے کہا کہ وہ ٹرائل کورٹ کو آگے کی پولیس ریمانڈ کی درخواستوں پر غور کرنے سے روکے گی۔

نائیڈو نے ہائی کورٹ کے 22 ستمبر کے حکم کے خلاف ہفتہ کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس نے 9 دسمبر 2021 کو درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *