[]
مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ واشنگٹن میں ہیومن رائٹس واچ کے دفتر کی ڈائریکٹر “سارا یاغر” نے کہا ہے کہ امریکی عناصر کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے عراقیوں کو 20 سال بعد بھی اپنے پامال شدہ حقوق کا معاوضہ حاصل کرنے کے لئے امریکی حکومت کی طرف سے بے رخی کا سامنا ہے اور انہیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: 20 سال گزرنے کے بعد بھی یہ متاثر عراقی شہری ابھی تک امریکی حکومت سے مقدمہ دائر کرنے یا اپنے حقوق کی تصدیق کے لیے کوئی واضح راستہ تلاش نہیں کر سکے ہیں۔
امریکی حکام نے نے کہا ہے کہ وہ ان شہریوں پر کی گئی اذیتوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان سے پیچھا چھڑانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جب کہ اس وقت متاثرہ عراقی شہریوں کو طویل عرصے تک ان اذیتوں کے اثرات اور نتائج کا سامنا ہے اور یہ صدمے عراقی عوام اور ان کے خاندانوں کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے ابو غریب جیل کے کچھ سابق قیدیوں کے انٹرویو کیے ہیں، ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ ان کی تصویر ابو غریب جیل کی ان تصویروں میں شامل تھی جو میڈیا میں بڑے پیمانے پر شائع ہوئی تھیں۔
ان تصویروں میں وہ اور دیگر قیدی برہنہ تھے اور ان کے سروں پر تھیلے کھینچے گئے تھے اور وہ انسانی اہرام کی طرح ایک دوسرے کے اوپر گرے تھے جب کہ 2 امریکی فوجی بھی ان کے پاس کھڑے ہیں اور ہنس رہے ہیں!
انہوں نے مزید کہا: مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر اذیتیں دی گئیں اور ابو غریب جیل میں قیام کے دوران بھی میری عصمت دری کی گئی۔ مجھے 16 ماہ تک بغیر کسی الزام کے قید میں رکھا گیا۔ جب میں ابو غریب میں تھا تو نفسیاتی دباؤ پر قابو پانے کے لیے اپنا ہاتھ کاٹتا تھا اور یہ عادت آج تک میرا پیچھے نہیں چھوڑ رہی۔
میں ان تلخ واقعات کو بھولنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ایسا نہہں کر پاتا۔
اگرچہ ابو غریب جیل میں 11 امریکی فوجیوں کو جرائم کے ارتکاب کی سزا سنائی گئی تھی لیکن انہیں دی گئی انتہائی ہلکی سزا اور ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہونے کو ماہرین نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ دی ہے کہ اسے ابو غریب جیل کے اذیت زدہ قیدیوں کو معاوضہ دینے کی کوئی دستاویز نہیں ملی۔
یاغر نے تاکید کی: امریکہ کو چاہئے کہ ان ایذا رسانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس جیل کے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ سے سرکاری طور پر معافی مانگنے کے ساتھ متاثرین کو معاوضہ ادا کرے۔
شائع شدہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی سرپرستی میں فوجی اتحاد نے 2003 سے 2009 کے درمیان کم از کم ایک لاکھ عراقیوں کو حراست میں لیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے امریکی اتحاد کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کا حوالہ دیتے ہوئے سنہ 2004 میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی رپورٹ کا ذکر کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ 2003 میں عراق میں مذکورہ اتحاد کے زیر حراست افراد میں سے 70 سے 90 فیصد کو غلط طریقے سے حراست میں لیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکہ نے مارچ 2003 میں عراق پر فوجی حملہ کر کے اس ملک پر قبضہ کر لیا اور 2011ء میں دیگر اتحادی فوجیوں کے ساتھ ملک چھوڑ دیا، لیکن 2014 کے آخر میں ایک بار پھر وہ داعش سے لڑنے کے بہانے عراق اور شام میں براہ راست فوجی آپریشن کر کے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں واپس آ گئے۔