بربریت کا ننگا ناچ اور مسلمانوں کے کرنے کے کام—

[]

مولانا ومیض احمد ندوی

اس وقت مسلمانان ہند انتہائی کٹھن مرحلے سے گزر رہے ہیں، ظلم وتشدد کی نیئ تاریخ رقم کی جارھی ھے ، ہردن کا سورج بربریت کی ایک نئی داستان لیکر طلوع ہورہاہے، ٹرین میں سفر کررہے نہتے مسافروں کو تک بخشا نہیں جارہاہے، وجیےپور بمبیی ایکسپریس میں پیش آئے ۓ سانحے نے سب کے ہوش اڑادئیے ہیں، گروگرام میں پولیس کی موجودگی میں دوسو دنگائیوں نے مسجد میں گھس کر جس طرح کی وحشیانہ کارروائی انجام دی اور مسجد کے جواں سال امام کو پیٹ پیٹ کر ڈالا وہ بربریت کی ایسی نادر مثال ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، ہریانہ کے مختلف شہروں میں بجرنگ دل کے غنڈوں نے جیسی کچھ تباہی مچائی ہے اس کے تصور سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،نوح اور دیگر بستیوں میں قریب ایک درجن مساجد ڈھادی گیئں ظالموں کے ظلم کا سلسلہ ابھی تھما نہیں تھا کہ سرکاری ظلم نے رہی سہی کسر پوری کردی، سیکڑوں مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر انہیں بے گھر کردیا گیا، ان کا قصور بس یہ تھا کہ وہ مسلمان ہیں-
2024کے انتخابات جوں جوں قریب آتے جارہے ہیں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نفرت کے سوداگروں کو اقتدار سے مطلب ہے بھلے وہ بے قصور مسلمانوں کی نعشوں سے گزر کر ہی کیوں نہ حاصل ہو۔
ملک کی اس سنگین صورتحال ملت اسلامیہ کی صفوں میں تشویش کا پایا جانا خلاف توقع نہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خدا پر یقین رکھنے والی امت حالات کے آگے سپرانداز نہیں ہوتی شاعر کے بقول ،
جہاں میں اہل ایمان مثل خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
حالات تاریک ضرور ہیں لیکن مسلمانوں کو عزم وحوصلہ کو بلند رکھتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، اس کے لئے درج ذیل نکات پر توجہ مرکوز کرنا مناسب ہوگا۔
(1) حالات چاہے کتنے ہی سنگین ہوں خدا کی عظیم قدرت پر یقین رکھنے والا مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوسکتا، مایوسی اہل کفر کا شیوہ ہے ، مسلمانوں پر ماضی میں اس سے زیادہ سنگین حالات آچکے ہیں اللہ تعالی نے دین اسلام کو مٹنے کے لئے نہیں نازل فرمایا بلکہ یہ دین سب پر غالب آ نے کےلئے اتارا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: وہی خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سارے ادیان پر غالب کرے ،تاریخ کے نازک سے نازک حالات میں بھی مسلمان مایوس اور پست ہمت نہیں ہوے ۔بڑے بڑے طوفان ٹکراے آندھیاں چلیں لیکن اسلام کا پرچم سرنگوں نہیں ہوا اگر فرقہ پرست طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ ظلم اور ناانصافی کے ذریعے ہندستان میں اسلام کے چراغ کو گل کردیں گی تو یہ ان کی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ۔
-2 ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو دعاء اور انابت الی اللہ کا خصوصی اہتمام کرنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی نے ایمان والوں کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور خدا کی مدد مشروط ہے کامل اطاعت اور انابت الی اللہ کے ساتھ۔ کامل اطاعت ایمان کامل کےبغیر ممکن نہیں، غزوہ أحد میں شکست کی وجہ سے جب صحابہ پر مایوسی چھائ تھی اس وقت اللہ تعالی نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: اور کمزور نہ پڑو اور غم نہ کرو تم ہی سربلند رہوگے اگر تم سچے مومن ہو، ضرورت اس کی ہے کہ مسلمانوں میں اجتماعی رجوع الی اللہ کی ملک گیر مہم چلائی جائے ۔
-3 موجودہ حالات میں سب سے اہم کام ملک سے نفرت کا خاتمہ اور برادران وطن سے تعلقات کی استواری کا ہے، فسطائ طاقتوں کو جو کچھ کامیابی مل رہی ہے اس میں کلیدی کردار ان کی منافرت پر مبنی ملک گیر مہم کا ہے، گودی میڈیا اور فرقہ پرست قائدین کے اشتعال انگیز بیانات جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں، ہیٹ اسپیچ کے تعلق سے ملکی عدالتوں کے بار بار انتباہ کے باوجود مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ناپاک مہم تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے اس وقت نفرت کے بازار میں جگہ جگہ محبت کی دکانیں کھولنے کی ضرورت ہے، ملک کی اکثریت امن پسند ہے وہ نہیں چاہتی کہ نفرتی ماحول پیدا ہو، ملک کے تمام طبقات کو لیکر شہر شہر قصبہ قصبہ پیام انسانیت تحریک چلانے کی ضرورت ہے، امن و آشتی انسانیت و رواداری کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے، اسلام کی پاکیزہ تعلیمات انسانیت نواز ہیں، قرآن ایک انسان کے قتل کو ساری کا قتل قرار دیتاہے، پیغبر اسلام خود رحمۃ للعالمین ہیں اور ان کا پیغام بھی سراپا رحمت ہے، ملک کے تمام طبقات کو قریب لانے کے لئے منصوبہ بند طریقے پر کام کرنا ناگزیر ہے ۔
-4 اس ملک میں مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم یہاں کے غیر مسلموں کو اسلام سے متعارف نہ کرناہے، یہاں مسلمان صدیوں تک حکمران رہے لیکن انہوں نے یہاں کی غیرمسلم آبادی کو اسلام سے روشناس نہ کرایا ، آج مسلمان اسی کاخمیازہ بھگت رہے ہیں، تعارف اسلام مسلمانوں کا فرض منصبی ہے جس میں کوتاہی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں سنگین جرم ہے، مکی زندگی میں حضرات صحابہ نے اسی فارمولہ کو اپنایا تھا آج بھی مسلمان اسی فارمولہ کو اپنا کر کامیاب ہو سکتے ہیں، امت کے ایک ایک فرد کے اندر دعوتی شعور بیدار کرنا اشد ضروری ہے، زبان وقلم کے علاوہ مسلمان اپنی عملی زندگی میں اسلامی اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ یہاں کے غیر مسلم باشندوں کو اسلام مسلمانوں کی عملی زندگی سے جھلکتا نظر آے بالخصوص معاملات لین دین اور معاشرت کے شعبوں مسلمان اسلام کی مکمل نمائندگی کریں،مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ملک میں فسادات کے مستقل سد باب کے طریقے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: فسادات کے مستقل سد باب کاطریقہ یہ ہے کہ آپ اپنا طرز زندگی ایسا بنالیں جس میں غیرمسلم کے لئے کشش ہو وہ دیکھیں کہ مسلمان اس طرح نظر نیچی کرکے چلتاہے اس سے کسی کو تکلیف نہیں پہونچتی وہ دیکھیں کہ اسٹیشن پر نل کھلاہوا ہے اور منوں پانی بہہ رہا ہے ہزاروں آدمی دیکھتے ہیں اور گزرجاتے ہیں ایک مسلمان جاتا ہے اور نل بند کردیتا ہے وہ کہتاہے کہ پانی ہمارے خدا کی دی ہوئی نعمت ہے یہ ہمارے ملک کا پانی ہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے،بارہا ایسا ہوا کہ سفر ہےفرسٹ کلاس ہے ہمارے غیر مسلم ہم سفر نے چاے کا آرڑر دیا ان کی چاے میں دیر ہوئی ہماری پہلے آگئ ہم نے ان کو پیش کردیا اور کہا کہ جب آپ کی آئے گی توہم پی لیں گے اس سے اسلام سے متعلق ان کا تخیل بدلتاہے وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسلام پھاڑ کھانے والی چیز نہیں ہے اسلام تو انسانیت کی تعمیر کا سانچہ ہے جس سے انسان ڈھل کر نکلتے ہیں اپنے طرز عمل سے بازاروں دفتروں کارخانوں میں آپ اسلامی تعلیمات اسلامی اخلاق اور اسلامی سیرت کادلکش نمونہ پیش کریں بوڑھا آدمی ہوتو اس کو سہارا دیں کوئی عورت ہوتو اس کی مددکریں اور کوئ غلط کام ہو رہا ہو جس سے معاشرے کو تکلیف یا ملک کا نقصان ہورہا ہو تو اس کو نرمی کے ساتھ روکنے کی کوشش کریں ۔
-5 اللہ نے دنیا کو دارالاسباب بنایا ہے یہاں جو قوم دنیوی کامیابی کے لئے مطلوب جس قدر اسباب اختیار کرے گی اسی قدر وہ کامیابی سے ہم کنار ہوگی اسباب کی اس دنیا میں مؤثر حکمت عملی اور مناسب منصوبہ بندی کے بغیر کامیابی نہیں ملتی ۔ہماراملک ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر باشندے کو حق رائے دہی حاصل ہوتاہے ،فسطائ طاقتیں اپنی نفرتی مہم کے ذریعے غیر مسلموں کے ووٹوں کو متحد کرکے اقتدار تک رسائی حاصل کرتی ہیں اور اقتدار کی طاقت کا غلط استعمال کرکے ملک کے مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات پر مظالم ڈھاتی ہیں اس وقت اقلیتوں پر جو کچھ مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ اقتدار ہی کے سہارے ڈھائے جارہے ہیں ان حالات میں فسطائ طاقتوں کو اقتدار سے روکے بغیر ہم ان کے مظالم سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے ۔فسطائ قوتوں کو اقتدار سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان اور دیگر مظلوم طبقات ووٹ کا بھر استعمال کریں اس کے لئے مسلمانوں میں ووٹنگ کے تعلق سے شعور بیداری کے لئے ملک گیر مہم ضروری ہے جن مسلمانوں نے اب تک اپناووٹڑ آئ ڈی نہیں بنایا وہ فوری طور پر ووٹر آئ ڈی بنالیں شہر حیدرآباد اور اضلاع میں علماء کرام کی نگرانی میں ووٹر آئ ڈی کا کام جاری ہے اس میں بھر پور حصہ لیں ۔نیز 17,18 سال کے جن بچوں کے نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں انہیں شامل کریں ۔یہ اس وقت کا جہاد ہے اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے برابر ہے ۔
-6 دین اسلام بزدلی نہیں سکھاتا ،مومن سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن بزدل نہیں ہوسکتا ،جان ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے جان دینا شہادت ہے ۔دنیا کاہرمذھب حفاظت خود اختیاری کی تلقین کرتا ہے جس طرح کسی پر ناحق ظلم کرنا جرم ہے اسی طرح ظلم سہنا بھی جرم ہے ظالم کے خلاف آواز اٹھانا اور ظلم سے بچنے کی تدبیر کرنامذھبی فریضہ بھی اور ملکی قانون کا تقاضا بھی۔
-7 ملک کے موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کا ہر شعبے میں طاقتور ہونا ضروری ہے مسلمانوں کے ساتھ اس وقت جو کچھ ہورہاہے وہ دراصل جرم ضعیفی کی سزا ہے مسلمان جب تک تعلیمی معاشی سیاسی اور دفاعی اعتبار سے کمزور ہوں گے انہیں اسی طرح روندا جاتا رہےگا ۔ علامہ اقبال کی زبان میں جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہے ۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *