[]
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
رسول اللہ ﷺ نے جس طرح شاہانِ عالم کے نام دین اسلام کی دعوت دیتے ہوئے خطوط روانہ کیے تھے، اسی نمونہ کی اتباع کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فارقی ؒ نے جلال الدین اکبری کے قائم کیے ہوئے دین الٰہی کے خاتمہ کے لیے حکومت ِ اکبری میں بڑے عہدوں پر فائز سر براہوں کے نام نہایت پُر اثر خطوط ارسال فرمائے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین ِ الٰہی ختم ہو گیا۔ آپ کے مکتوبات تقریباً (۵۵۰)ساڑھے پانچ سو کے قریب ہیں۔ آپ ؒ نے اپنے پیر ومرشد کے صاحب زادوں کے نام جو مکتوب لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
حضرت مجدّد ؒکے مرشد حضرت باقی باللہ ؒ کے دو صاحب زادے تھے، پہلے خواجہ عبید اللہ ؒکی ماہ ربیع الاول میں اور دوسرے خواجہ محمد عبد اللہ کی چھ ماہِ بعد رجب سن ۱۰۱۰ھ میں ولادت ہوئی ، باغِ ولایت کے یہ دونوں پھول جب اپنی بہار دکھانے لگے تو آپؒ نے ان کی خدمت میں ایک خط لکھا: ’’ حمد وصلاۃ اور تبلیغ دعوات کے بعد اپنے مخدوم زادوں کی جناب میں عرض ہے کہ یہ فقیر سر سے پائوں تک آپ کے والد بزرگوار (حضرت باقی باللہ ؒ) کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہے۔ فقیر نے طریقہ سلسلہ نقشبندیہ کی الف ‘ با‘۔۔ کا سبق انہی سے لیا ہے اور اس کے حروف تہجی کو انہی سے سیکھا ہے۔
سلوک کے مدارج انہی کی نگرانی میں طے کیے ، علم باطنی ، علم لدنی کی دولت انہی کی صحبت سے حاصل کی ہے۔ ’’ سفر در وطن ‘‘ کی سعادت بہ طفیل ان کی خدمت سے ملی ہے۔ ان کی توجہ شریف نے اس ناقابل کو ڈھائی مہینے کے عرصہ میں نقشبندیہ نسبت سے روشناس اور اکابر مشائخ کے حضورِ خاص سے سرفرارز کر دیا۔ آپ کے طفیل سے اس راہ میں جو تجلیات وظہورات اور انوارو الوان وبے رنگی وبے کیفیتیں ظاہر ہوئیں ان کی تشریح وتفصیل کیسے بیان کی جائے ۔
توحید کے معارف اور اتحاد وقرب ومعیت واحاطہ وسَریان کے دقائق میں سے شاید ہی کوئی معرفت یا دقیقہ رہ گیا ہو جو اُن کی تو جہاتِ عالیہ کی برکت سے اس فقیر پر ظاہر نہ ہوا ہو اور اس کی حقیقت واضح نہ ہوئی ہو۔یہ فقیر اگر ساری عمر اپنے سر کو آپ حضرات کی چوکھٹ کے خدام سے پامال کراتا رہے تب بھی ہیچ ہے۔‘‘جو شخص اپنے مرّبی ومحسن کے احسان کو نہ بھُولے اور ہمیشہ اس کے واسطے دعا کرے اس نے محبت کا حق ادا کرد یا۔ اس تحریر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آپ کو اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ سے کس قدر محبت اورکتنی گہری عقیدت تھی، جبکہ مجدد الف ثانی ؒخود اعلیٰ منصب ولایت پر فائز تھے اور آپ کی عمر کا کارواں اعلیٰ منزلیں طئے کررہا تھا ۔
آپ نے سلسلہ نقشبندیہ کے مقام ومرتبہ کو واضح کرتے ہوئے خواجہ ہاشم ؒ کے نام طریقہ نقشبندیہ کے فضائل تحریر فرمائے ہیں ،چوں کہ آپ شروع میں دیگر سلا سل سے مستفیدومستفیض ہوئے اورپھر آپ اس مبارک طریقہ سے وابستہ ہوئے ۔ آپ نے اپنے مکتوب میں لکھا : اس مبارک سلسلہ کا انتساب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف ہے اور آپ کو جو تعلق سردارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا وہ محتاج بیان نہیں ۔ اس کا اثر اس مبارک سلسلہ میں بہ درجہ اتم موجود ہے ۔ اس کی اساس اتباعِ سنّت ،اجتنابِ بدعت اور آداب ِ صحبت پر ہے ۔
آپ کے مبارک رسائل اور مکتوبات کے پڑھنے سے عشق وسوز اور محبت ِنبوی علی صاجہا الصلاۃ والتحیۃ کا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ آپ جب بھی سردار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تھے تو نہایت ادب واحترام سے کرتے ہیں اور پھر ہدیہ صلوٰۃ وسلام بَوجہِ اَتم واَکمل واَ حسن پیش کرتے تھے یو ں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیشہ آپ کے پیش نظر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد رہا کرتا تھا جس کو ابنِ ماجہ ؓنے روایت کیا ہے ۔اذا صلیتم علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاحسنوا الصلاۃ علیہ فانکم لا تدرون لعل ذلک یعرض علیہ (جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودبھیجو تو اچھے طریقے اور الفاظ سے بھیجو ۔تم نہیں جانتے کہ شاید وہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتاہو )۔ علمی اور مہتم بالشان مکاتیب کااختتام ذکرِ نبوی پر کرتے ہیں ۔ کہیں تحریر فرماتے ہیں ۔ والسلا م علی من اتبع الھدی والتزم متابعۃ المصطفیٰ علیہ وعلی الہ الصلوٰت والتسلیمات اتمھا واکملھا۔اور کہیں آپؐ کے وسیلہ سے دعا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:بحرمۃ حبیبہ محمد سید الاولین والآخرین علیہ الصلوٰۃ والسلام وآلہ الکرام۔ اپنے عشق ومحبت کا اظہار طر ح طرح سے کرتے ہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ خوش نصیب افراد جو آپ کے مکاتیب ِ شریفہ کا مطالعہ کیا کرتے ہیں آپ کی مبارک روش کی پیروی کرکے اسبابِ سعادت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں ۔
مجدد الف ثانی ؒ کے متعلق حضرت خواجہ محمد ہاشم کشمیؒ نے لکھا ہے کہ ’’اس کمترین نے بارہا آپ سے سناہے کہ: کیا ہم اور کیا ہمارا عمل ۔جو کچھ بھی ہم کو ملا ہے وہ صرف اللہ کا کرم ہے ۔ اور اگر کوئی چیز اس کے کرم کے واسطے بہانہ بنی ہے تو وہ سیّد الاولین والآخرین کی متابعت ہے ۔ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے کام کا مدار اسی پر ہے جو بھی مِلا ہے اتباعِ سنّت ہی کی بہ دولت ملاہے اورجو کچھ نہیں ملا ہے اس وجہ سے نہیں ملا ہے کہ بشریت کی وجہ سے ہم سے اتباعِ سنّت میں کوتا ہی ہوئی ہے ۔
‘‘ آپؒ میں اتباع ِ رسولؐ ، شریعت کی پابندی، عشقِ خدا عشقِ مصطفی ، اخلاص وتوکل، تقویٰ وطہارت، ادب واخلاق اتم درجہ موجود تھے ۔ حضرت خواجہ محمد ہاشم لکھتے ہیں کہ ایک دن مجدد الف ثانی ؒ اسرار ومعارف تحریر فرمارہے تھے ۔ نا گاہ ضرورت بَشَری کی وجہ سے بیت الخلا تشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ آپ باہر تشریف لائے اور آپ نے پانی طلب فرما کر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے نا خن کو دھویا اور آپ نے فرمایا نا خن پر سیاہی کا دھبّا تھا اور سیاہی حروف قرآنی کے اسباب ِ کتا بت میں سے ہے ۔ بنابریں لائق ِ ادب نہ سمجھا کہ اس دھّبہ کے ہوتے ہوئے طہارت کروں ۔ اور پھر آپ برائے طہارت تشریف لے گئے ۔
اسی طرح ایک دن آپ نے کالی مرچ کے چند دانے طلب کئے ۔مولانا صالح ختلانی ؒ نے تھیلی میں سے چھ دانے نکال کر لائے ۔آپ نے رنجیدہ ہو کر فرمایا : ذرا ہمارے صوفی کو تو دیکھوکہ انھوں نے آج تک ’اللہ وِتر یحب الوتر‘ نہیں سناُہے (اللہ طاق ہے اس کو طاق پسند ہے) وِتر کی رعایت کرنی مستحب ہے یعنی پسند یدہ۔ خبر نہیں لوگ مستحب کو کیا سمجھتے ہیں ۔مستحب وہ کام ہے جو حضرت مولی جّل شانہ کو پسند ہے ۔ اگر کسی ایسے کام کیلئے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اس کے بدلے میں دنیا اور آخرت بھی دے دی جائے تب بھی کچھ نہیں دیا ۔
اسی طرح ایک دن آپ چار پائی پر بیٹھے تھے، نا گاہ گھبراکر اُٹھے ، اور ایک کاغذ کو جس پر کچھ تحریر تھا اٹھا یا اور فرمایا: بے ادبی ہے کہ کوئی تحریر ہم سے نیچے رہے۔ آپؒ کی ساری حیات آداب میں گزری، آپ اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے : فقہ کی معتبر کتابوں کا مطالعہ کیا کرو تاکہ تم کو معلوم ہوکہ کونسا فعل مسنون ہے اور کونسا مردود ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ سے یہ زمانہ بہت دور ہوگیا ہے ۔ بد عات اور فجور کی تاریکی نے دنیا کو گھیر لیاہے ۔ اس تاریکی اور اندھیرے میں چراغ سنّت نبوی ہی کی روشنی سے راستہ نظر آسکتاہے ۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع سے عمدہ کوئی فضلیت نہیں ہے آنحضرت سے تشبہ نہایت ِ سعادت ہے ۔ چاہے وہ ظاہراً ہی تشبہ ہو ، ایک مبارک سنّت کی نا تمام پیروی اس ہزار شب بیداری سے بڑھ کر ہے جو اپنے طور پر کی جائے ۔ آپ نے فرمایا بڑے شرم کا مقام ہے کہ کوئی شخص تنہا نماز پڑھ رہا ہوا اور وہ رکوع اور سجدے میں تین مرتبہ تسبیح کہنے پر اکتفا کرے (یعنی پانچ ،یا سات مرتبہ نہ کہے)
آپ نے فرمایا لوگوں کو ریا ضت اور مجاہدے کا شوق ہے۔ حالا نکہ نماز کے آداب کو صحیح طور پر بجا لا نے سے بڑھ کر کوئی ریا ضت اور مجاہدہ نہیں ہے ۔ نماز کے واجبات اور سنن کی پوری طرح رعایت کرنی بڑا مشکل کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وانھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین ’’اور البتہ ّ وہ بھاری ہے مگر اُنہی پر جن کے دل پگھلے ہیں ۔،، یعنی اصحاب خشوع کے لئے جن کے دل پگھل گئے ہیں نماز راحت ہی راحت ہوتی ہے ۔ سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال سے جب فرماتے تھے ۔ارحني یا بلال: اے بلال مجھ کو راحت پہنچا ،تو وہ عاشقِ صادق اذان دیتے اور آپ نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ۔
آپ نے فرمایا : اولیا ء کے احوال شریعت کے تابع ہیں ۔ شریعت ان کے احوال کے تابع نہیں شریعت قطعی ہے ۔ اس کا ثبوت وحی سے ہوا ہے اور احوال ظنی ہیں اُن کا ثبوت کشف والہام سے ہے کشف والہام میں خطا کی گنجائش ہے بخلاف وحی کے کہ وہ حق ہے اس میں خطا کا شائبہ تک نہیں ہے ۔تعجب ہے کہ بعض خام ونا تمام درویش اپنے کشف پر بھروسہ کرکے شریعت کی مخالفت کرجاتے ہیں۔ حالانکہ اگر اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوتے جوکہ خود صاحب شریعت پیغمبر تھے اسی شریعت محمدی کی پیروی کرتے ۔علی صاحبہا الصلاۃ والتحیۃ۔ اور شریعت کی پیروی کرتے ۔حضرت مجدد نے حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر کر کے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی روایت امام احمد اور بیہقی نے حضرت جابر سے کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ ہم یہود سے ایسی باتیں سنتے ہیں جوہم کو اچھی لگتی ہیں ہم اُن سنی ہوئی باتوں میں سے کچھ لکھ سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم بھی حیرت و شک میں پڑگئے ہو جیسا کہ یہود اور نصاری پڑگئے ہیں میں تمہارے پاس ایسی پاک ملت لایا ہوں کہ اگر موسی باحیات ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کے لئے کوئی دوسری سبیل نہیں تھی۔
اور حضرات القدس ہی میںہے ایک دن برائے قضائے حاجت بیت الخلاء گئے وہاں مٹی کا ناتمام ایک پیالہ تھا جس پر لفظ ’’اللہ‘‘ نقش تھا اور مہتر اُس سے قاذورات(کچرا) اٹھا تا تھا آپ کی نظر اس پیالہ پر اور اللہ کے مبارک نام پر پڑی آپ نے اس کو اٹھایا ،باہر تشریف لائے اور پانی منگوا کر اپنے ہاتھ سے اس نا تمام پیالہ کو پاک کیا اور پھراس کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر ادب سے طاق میں رکھ دیا جب پانی پیتے تو اس پیالے میں پیتے اور اس سلسلہ میں آپ کو الہام ہوا :تم نے ہمارے نام کا احترام کیا ہم تمہارے نام کو رفعت دیں گے۔ آپ کو جو الہام ہوا روزِ روشن کی طرح اس کا ظہور تمام عالم میں ہوا، بد طینت اور معاند کچھ بھی کریں دنیا آپ کو امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی کے نام سے یاد کرتی ہے اور آپ کے واسطے دعا کرتی ہے قدس اللہ سرہ الاقدس۔
خواجہ ہاشم نے زبدۃ المقامات کے فصل نہم میں آپ کی علالت اور وفات کا حال لکھا ہے۔ اس میں تحریر ہے کہ ایک تہائی رات باقی تھی ، آپ اٹھے اور وضو کیا اور کھڑے ہو کر تہجد کی نماز پڑھی پھر فرمایا : تہجد کی یہ آخری نماز ہے۔ وفات سے کچھ پہلے آپ پر بیخودی کی کیفیت طاری ہونے لگی، مخدوم زادہ خواجہ محمد سعد ؒنے عرض کی یہ بیخودی اور وارفتگی کمزوری کی وجہ سے ہے یا استغراق کی وجہ سے۔ آپ نے فرمایا بعض عظیم معاملات درپیش ہیں اور میں ان کی طرف متوجہ ہوں تاکہ وہ مکشوف اور ظاہر ہو جائیں۔ آپ کو اس حال سے جب بھی کچھ افاقہ ہوتا تھا اتباع سنت مبارکہ، اجتناب از بدعت اور ذکر و مراقبہ کی تاکید فرماتے تھے۔ اتباع سنت کے سلسلہ میں آپ کے الفاظ یہ ہوتے تھے یہ سنت را بہ دندان خواہید گرفت یعنی سنت نبوی پر پختگی اور مضبوطی کے ساتھ عمل کرنا ہوگا۔
خواجہ ہاشم نے اس کے بعد لکھا ہے: آپ کی اس وصیت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کا جذبہ کار فرما ہے۔ ترمذی اور ابو داود نے عرباض بن ساریہ سے جو روایت کی ہے اس کا آخری حصہ اس طرح ہے۔ جو بھی تم میں سے زندہ رہے گا وہ اختلافات کثیرہ دیکھے گا لہٰذا تم میری سنت اور میرے خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو اپنے دانتوں سے پکڑو (یعنی مضبوطی سے تھام لو) اور اپنے آپ کو نئی باتوں سے بچاؤ کیونکہ ہر نئی بات گمراہی ہے‘‘۔
خواجہ ہاشم نے یہ بھی لکھا ہے کہ اشراق کے وقت آپ نے پیشاب کے لئے برتن طلب فرمایا۔ جب بر تن آیا تو اس میں ریت نہ تھی: فرمایا چھینٹے اُڑنے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا برتن لے جاؤ اور مجھ کو لٹا دو جب آپ کو لٹایا گیا تو مسنون طریقہ پر داہنے ہاتھ پر رخسار کو رکھا اور ذکر شریف میں مصروف ہو گئے خواجہ محمد سعیدؒ نے سرعت نفس دیکھ کر عرض کی۔ حالِ اشرف کیسا ہے۔ ارشاد ہوا: بہتر ہے اور پھر فرمایا نماز کی وہ دو رکعت جو میں نے پڑھی ہیں کافی ہیں؟ خواجہ ہاشم نے لکھا ہے کہ آپ کا آخری کلام یہی تھا۔
اس کے بعد آپ کی روح جسد خاکی اور دار فانی کو چھوڑ کر رفیق اعلیٰ کی طرف روانہ ہو گئی۔ مشکات کی کتاب الجہاد میں مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے سورۃ آل عمران کی آیت کے متعلق دریافت کیا (آیت) وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاء عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ یہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے اُن کو تو مردہ نہ سمجھ بلکہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزی پاتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا تھا۔ آپ نے فرمایا۔ اُن کی ارواح سبز پرندوں کے اندر ہیں، ان کے واسطے عرش سے لٹکی ہوئی قندیلیں ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں جنت میں سیر کرتے ہیں اور پھر قنادیل کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
بارگاہِ یزدی میں دعاء ہے کہ ہم سب کو حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے فیوض وبرکات سے مالمال فرمائے اور سنتوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ؐ۔
٭٭٭